Saturday, September 1, 2018

حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ، حـــدیث وسیـــرت میں فـــرق

حدیث وسیرت میں فرق

محدثین اور ارباب رجال کی یہ قدیم اصطلاح ہے کہ رسول اللہﷺ کے خاص غزوات کو مغازی اور سیرت کہتے تھے۔ چنانچہ ابن اسحاق کی کتاب کو مغازی بھی کہتے ہیں اور سیرت بھی۔ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری کتاب المغازی میں یہ دونوں نام ایک ہی کتاب کے لئے استعمال کئے ہیں۔ فقہ کی بھی یہی اصطلاح ہے۔ فقہ میں باب کتاب الجہاد والسیرمیں لفظ سیرت سے غزوات اور جہاد کے احکام مراد ہوتے ہیں۔

٭… محققین کہتے ہیں کہ صحیح حدیث، تمام ارباب سیر کی متفقہ بات کے مقابلہ میں قابل ترجیح ہے۔
دو واقعے بطور مثال کے یہ ہیں:

۱…غزوات میں ایک غزوئہ ذو قرد کے نام سے مشہور ہے ۔ ارباب سیر متفق ہیں کہ صلح حدیبیہ سے قبل یہ واقع ہوا تھا لیکن صحیح مسلم میں سلمہ بن الاکوع کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد اور خیبر سے تین دن پہلے کا واقعہ ہے۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے:
لاَ یَخْتَلِفُ أَھْلُ السِّیَرِأَنَّ غَزْوَۃَ ذِیْ قِرَدٍ کَانَتْ قَبْلَ الْحُدَیْبِیَۃِ فَیَکُونُ مَا وَقَعَ فِیْ حَدِیْثِ سَلِمَۃَ مِنْ وَھْمِ بَعْضِ الرُّوَاۃِ۔اہل سیر میں سے کسی کو اس امر میں اختلاف نہیں ہے کہ غزوئہ ذی قرد حدیبیہ سے پہلے واقع ہوا تھا تو سلمہ کی حدیث میں جو مذکور ہے۔ وہ کسی راوی کا وہم ہو گا۔
حافظ ابن حجر ؒفتح الباری (ذکر غزوئہ ذی قرد)میں قرطبیؒ کے اس قول پر بحث کر کے لکھتے ہیں:
فَعَلَی ھَذَا مَا فِی الصَّحِیْحِ مِنَ التَّارِیْخِ لِغَزْوَۃِ ذِیْ قِرَدٍ أَصَحُّ مِمَّا ذَکَرَہُ أَھْلُ السِّیَرِ۔ تو اس بنا پر صحیح مسلم میں غزوئہ ذی قرد کی جو تاریخ مذکور ہے وہ مصنفین سیرت کی دی گئی تاریخ سے زیادہ صحیح ہے۔
مشہور محدث دمیاطیؒ نے سیرت پر ایک کتاب لکھی ہے جو مطبوع ہے۔ اس میں انہوں نے اکثر موقعوں پر ارباب سیر کی روایت کو ترجیح دی تھی لیکن جب زیادہ کھود کرید کی تو انہیں معلوم ہوا کہ احادیث صحیحہ کو سیرت کی روایتوں پر ترجیح حاصل ہے چنانچہ اپنی کتاب میں ترمیم کرناچاہی لیکن اس کے نسخے کثرت سے شائع ہو گئے تھے اس لئے نہ کر سکے۔ حافظ ابن حجرؒ خود دمیاطی کا قول نقل کر کے لکھتے ہیں:
وَدَلَّ ھٰذَا عَلَی أَنَّہُ کَانَ یَعْتَقِدُ الرُّجُوْعَ عَنْ کَثِیرٍ مِمَّا وَافَقَ فِیْہِ أَھْلُ السِّیَرِ وَخَالَفَ الأحَادِیْثَ الصَّحِیْحَۃَ وَأَنَّ ذَلِکَ کَانَ بِہِ قَبْلَ تَضَلُّعِہِ مِنْہَا وَلِخُرُوْجِ نُسَخِ کِتَابِہِ وَانْتِشَارِہِ لَمْ یَتَمَکَّنْ مِنْ تَغْیِیْرِہِ۔ زرقانی بر مواہب جلد سوم۔اور اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ ( دُمیاطی) قصد کر چکے تھے کہ جن موقعوں پر انہوں نے ارباب سیر سے اتفاق کر کے احادیث صحیحہ کی مخالفت کی ہے ان سے رجوع کریں گے اور یہ کہ یہ امر ان سے مہارت فن سے قبل صادر ہوا۔ لیکن چونکہ کتاب کے نسخے شائع ہو چکے تھے۔ اس لئے وہ اپنی کتاب کی اصلاح نہ کر سکے۔

۲…ایک غزوہ، غزوئہ ذات الرقاع کے نام سے مشہور ہے اس کی نسبت اکثر ارباب سیر کا اتفاق ہے کہ جنگ خیبر سے قبل واقع ہوا تھا لیکن امام بخاریؒ نے تصریح کی ہے کہ خیبر کے بعد واقع ہوا۔ اس پر علامہ دمیاطیؒ نے بخاریؒ کی روایت سے اختلاف کیا۔ حافظ ابن حجر ؒفتح الباری میں لکھتے ہیں۔
وَأَمَّا شَیْخُہُ الدمْیَاطِیُّ فَادَّعَی غَلَطَ الْحَدِیْثِ الصَّحِیْحِ وَأَنَّ جَمِیْعَ أَھْلُ السِّیَرِ عَلَی خِلاَفِہِ(فتح الباری جزء سابع)باقی ان کے شیخ دمیاطی نے صحیح بخاری کی حدیث صحیح کو غلط کہا ہے اور تمام اہل سیر کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ بالاتفاق اس حدیث کے خلاف ہیں۔

حافظ ابن حجرؒ نے اس قول کو نقل کر کے اس کا رد بھی کیا ہے۔
اس تقریر کا ماحصل یہ ہے کہ: 

۱…سیرت ایک جداگانہ فن ہے اور بعینہ فن حدیث نہیں ہے اور اس بنا پر اس کی روایتوں میں اس درجہ کی شدت احتیاط ملحوظ نہیں رکھی جاتی جو فن صحاح ستہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ فقہ کا فن قرآن اور حدیث ہی سے ماخوذ ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہی بعینہ قرآن یا حدیث ہے یا ان دونوں کے ہم پلہ ہے۔

۲…مغازی اور سیرت میں جس قسم کی جزئی تفصیلیں مقصود ہوتی ہیں وہ فن حدیث کے اعلی بلند معیار کے موافق نہیں مل سکتیں اس لئے ارباب سیر کو تنقید اور تحقیق کا معیار کم کرنا پڑتا ہے اس بنا پر سیرت و مغازی کا رتبہ فن حدیث سے کم رہا۔

۳…جس طرح امام بخاری و مسلم نے یہ لازم قرار دیا کہ کوئی ضعیف حدیث بھی اپنی کتاب میں درج نہ کریں گے اس طرح سیرت کی تصنیفات میں کسی نے یہ التزام نہیں کیا۔ آج بیسیوں کتابیں قد ماء سے لے کر متاخرین تک کی موجود ہیں۔ مثلاً سیرت ابن اسحاق‘ سیرت ابن ہشام‘ سیرت ابن سیدالناس‘ سیرت دمیاطی‘ حلبی‘ مواہب لدنیہ کسی میں یہ ضروری قرار نہیں دیا گیا۔

یہ ملحوظ رہے کہ کتب حدیث میں رسول اکرمﷺ کے حالات اور اخلاق و عادات سے متعلق بکثرت واقعات مذکور ہیں جو سیرت کہلائے جاسکتے ہیں۔ تا ہم تنہا ان سے ایک تاریخی تصنیف تیار نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ ان میں تاریخی ترتیب نہیں ہے یہاں ہم نے جن کتب کا ذکر کیا ہے کتب حدیث ان کے علاوہ ہیں۔(سیرۃ النبیﷺ ج۱، ص ۸، حاشیہ)

No comments:

Post a Comment

٢٣٥- کیا مرغ یا انڈے کی قربانی جائز ہے.؟

✍🏻مجاہدالاسلام عظیم آبادی سوال-مدعیان عمل بالحدیث کا ایک گروہ مرغ کی قربانی کو مشروع اورصحابہ کرام کا معمول بہ قرار دیتا ہے۔اور ان میں سے ...