Sunday, December 16, 2018

حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(سنت،کتاب اللہ بھی ہے)

سنت ،کتاب اللہ بھی ہے

لفظ کتاب اللہ بھی اسی سنت کے معنی میں استعمال ہوا جس طرح سنت کا لفظ کتاب اللہ کے ساتھ مستعمل ہوا۔مثلاًایک شادی شدہ عورت اور غیر شادی شدہ نوجوان مزدور (عسیف) کا مقدمہ جب آپ ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تو فرمایا:
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَأَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللّٰہِ جَلَّ ذِکْرُہُ۔واللہ میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔
فیصلہ رجم کی سزا کا تھا جومقدمہ کے فریقین نے قبول کیا۔مگر کیا یہ فیصلہ قرآن کریم میں ہے؟ نہیں! بلکہ احادیث میں ہے جو عین کتاب اللہ اور منشأ الٰہی کے مطابق ہے۔ ا س لئے اسے آپ ﷺ نے خود کتاب اللہ سے تعبیر کیا۔آپ ﷺ کے فیصلے سے قبل یہی سزادیگر صحابہ بھی اسے بتاتے رہے جو انہیں معلوم تھی۔ورنہ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہوگی کہ صرف حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ سے قرآن کریم ہی مراد لیا جائے کیونکہ اس سے سارے ذخیرہ ٔحدیث کا انکار ہوتا ہے اور کسی کو محروم کرنا بھی مراد ہے۔شیخ عبد الرحمن کیلانی ؒ لکھتے ہیں: صحابہ کرام رسول اکرم ﷺ سے کتاب اللہ کا مفہوم جان چکے تھے کہ اس سے مراد شریعت کے وہ تمام عقائد واحکام ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمادئے ہیں۔

٭…اُم المؤمنین نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو خرید کر آزاد کرنا چاہا۔ سیدہ بریرہ ؓ کے مالک نے حق تولیت اپنے پاس رکھنے کی شرط لگا دی۔آپ ﷺ کے علم میں جب یہ بات آئی تو خطبہ عام دیا اور فرمایا: مَا بَالُ النَّاسِ یَشْتَرِطُونَ شُرُوْطاً لَیْسَتْ فِی کِتَابِ اللّٰہِ۔۔لوگ کیوں ایسی شروط رکھتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں۔ مگرکیا یہ شرط اَلْوَلاَئُ لِمَنْ أَعْتَقَ تولیت اسی کی ہوگی جو آزاد کرے گا ۔قرآن کریم میں ہے؟کتاب اللہ سے مراد کیا یہی مجلد کتاب ہے یا اس سے مراد آپ ﷺ نے وہ شریعت لی جو آپ ﷺ پر نازل ہوئی تھی؟ صحابۂ رسول نے بھی یہی سمجھا۔اس لئے بریرہ رضی اللہ عنہا کا حق تولیت ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہی آپ ﷺ نے دیا اس لئے کہ اسے خرید کرآزاد کرنے والی وہی تھیں۔ (صحیح بخاری ، کتاب الشروط)

٭… سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی صحابہ رسول اور نئی نسل کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا: الرَّجْمُ فِی کِتَابِ اللّٰہِ حَقٌّ مَنْ زَنٰی إِذَا أُحْصِنَ۔ جب شادی شدہ زنا کرے تو اس کے لئے رجم کی سزا کتاب اللہ سے واقعتاً ثابت ہے۔(صحیح بخاری ، کتاب المحاربین، باب رجم الحبلی)۔ مگرکیا رجم کا حکم کتاب اللہ میں ہے؟ اس لئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول حَسْبُنَاکِتَابُ اللّٰہِ پر تبسم بکھیرنے کی ضرورت نہیں۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک باب باندھ کر یوں واضح کیا ہے۔ بَابُ الْمُکَاتَبِ وَمَا لاَیَحِلُّ مِنَ الشُّروطِ الَّتِی تُخَالِفُ کِتَابَ اللّٰہِ۔ مکاتب اور ایسی شروط جو کتاب اللہ کی رو سے ناجائز ہیں۔

٭…ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ کی بیماری نے شدت اختیار کرلی تو آپ ﷺ نے فرمایا:
اِیْتُوْنِیْ بِکِتَابٍ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لاَ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ۔ میرے پاس لکھنے کا سامان لاؤ میں تمہیں کچھ تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہوسکو۔ 
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم ﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے ۔ حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ یہ ہمارے لئے کافی ہے۔لوگ آپس میں بحث وتکرار کرنے لگے۔ نبی کریم ﷺ کو یہ بحث ناگوار گذری ۔ فرمایا: قُوْمُوْا عَنِّیْ لاَ یَنْبَغِیْ عِنْدِی التَّنَازُعُ۔ یہاں سے اٹھ جاؤ میرے پاس ایسی بات مناسب نہیں۔سیدنا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
إنَّ الرَّزِیْئَۃَ کُلَّ الرَّزِیْئَۃِ مَا حَالَ بَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَبَیْنَ کِتَابِہِ۔نبی کریم ﷺ اور ان کی طرف سے تحریر کے درمیان حائل ہونا انتہائی افسوسناک بات تھی۔(صحیح بخاری: ۱۴۴)

سیدنا عمر ؓ نے کہا تھا: أَہَجَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ؟(صحیح مسلم) کیا نبی کریم ﷺ کوئی نامعقول بات کہہ سکتے ہیں؟ مراد یہ کہ ہرگز نہیں۔ اگر یہ بات غلط ہوتی تو آپ ﷺ سیدنا عمرؓ کی اصلاح فرما کے انہیں خاموش کرادیتے۔ اس لئے ان کی اس رائے کو آپ ﷺ نے برقرار رکھا ورنہ حتمی ارادہ ہوتا تو آپ ضرور وہ تحریر لکھوا دیتے۔

رسول اکرم ﷺ حال صحت وحالت مرض کسی صورت میں بھی شرعی احکام تبدیل نہ کرسکتے تھے۔اور نہ ہی اپنے فرائض منصبی میں کوئی کوتاہی کرسکتے تھے۔آپ ﷺ کے بیمار ہوجانے سے نہ تو آپ ﷺ کے مرتبے میں کوئی فرق پڑسکتا تھا اور نہ ہی شریعت میں کوئی نقص پیدا ہوسکتا تھا۔

وہ کتابت آپ کیا کروانا چاہتے تھے؟ اس بارے میں سبھی اندازے ہیں یا بدگمانیاں۔کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔اس لئے نہ لکھوانے کا فیصلہ بھی وحی کے مطابق ہوا اور لکھوانے کاپہلا حکم منسوخ ہوگیا۔

سوال یہ ہے کہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے یہ جملہ کیوں ارشاد فرمایا؟ کیا یہ ان کی فراست اور دقت نظر نہ تھی کہ کچھ لکھوانے کے بعد اگر امت اس پر عمل نہ کرسکی تو وہ لائق سزا ہو گی۔ نیز آپ ﷺ کا لکھا ہوا نص ہوجاتاجس میں اجتہاد کی گنجائش باقی نہ رہتی۔یہ تھا ان کا دین کے بارے میں کامل یقین کہ امت اب گمراہ نہیں ہوسکتی۔ اس لئے انہوں نے نبی کریم ﷺ کا بوجھ گھٹانے کی کوشش کی ۔ یہی ان کی فقاہت تھی۔ اس لئے اس واقعے پر نہ کوئی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر خفا ہوا اور نہ ہی کسی نے خوشی کا اظہار کیا۔

٭…دیگر فقہاء کرام بھی کتاب اللہ کے مفہوم سے مراد سارا دین اور بالخصوص رسول اکرم ﷺ کا فرمایا ہوا حکم وفیصلہ ہی لیتے ہیں۔ صحابہ کرام بھی رسول اکرم ﷺ سے کتاب اللہ کا مفہوم جان چکے تھے کہ اس سے مراد شریعت کے وہ تمام عقائد واحکام ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمادئے ہیں۔بے شمارخطبات میں آپ ﷺ نے کتاب اللہ کے الفاظ ارشاد فرما ئے اوران کایہی مفہوم صحابہ کرام کو باور کرایا۔(فتنہ پرویزیت: ۱۴۱)

٭…اس لئے جو کام اللہ ورسول کے تھے صحابہ کرام نے انہیں اپنے ہاتھ نہیں لیا بلکہ ان کی حدود میں رہنے کی کوشش کی۔ اپنی رائے دینے میں بہت محتاط تھے۔ چہ جائیکہ وہ قرآن کریم سے سارے مطالب لے کراس کی اصطلاحات تک بدل دیں۔اس سوچ نے غالباً انہیں یہ جرات بھی دی کہ نص کے خلاف کسی کا کوئی فیصلہ یا حکم سنا تو برملا اس کی اصلاح چاہی یا کردی۔ خلیفہ راشدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دئے ہوئے آرڈینینس کو ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر نے یہ کہہ کر رد کردیا تھا: مَنْ أَبِی؟ آپ ﷺ کی اجازت اگر حج تمتع کے بارے میں ہے تو میرا باپ کون ہوتا ہے؟جو اسے منع کرے۔(مسند احمد)

منبر پر جب مجمع عام میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حقِ مہر زیادہ دینے پر منع فرمایا تو خواتین کی مجلس میں بیٹھی ایک خاتون نے برملا کہا: عمر! اگر اللہ اس کی اجازت دیتا ہے تو آپ کون ہیں اسے روکنے والے؟ سنتے ہی فرمایا: أَصَابَتِ امْرَأَۃٌ وَأَخْطَأَ عُمَرُ۔ عورت نے درست بات کہی اور عمر سے غلطی ہوگئی۔رضی اللہ عنہ۔

جمہور فقہاء اس رائے، قیاس یا اجماع کو تسلیم ہی نہیں کرتے جو سنت کے مخالف ہو۔ اس لئے امام مالک رحمہ اللہ کا اصول عمل اہل مدینہ ہی صحیح حدیث پر ترجیح پائے گا علماء موالک نے اس کی بہت سی تعبیرات پیش کی ہیں یہی حال اس اجماع کو تسلیم نہ کرنے کا ہے جو فقہاء اربعہ کے نام سے ان کے بعد نام پا گیا۔ اس لئے من مانے مفہوم کو اخذ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی چہ جائے کہ اسے شریعت مانا جائے۔

حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(سنت خلفاء راشدین)

سنت خلفاء راشدین

سنت ِخلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم : کو بھی آپ ﷺ نے سنت فرمایا ہے۔
فَاِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرَی اخْتِلاَفاً کَثِیْرًا فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ۔ (رواہ السنن واحمد)۔جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ لہٰذا تم میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم کی سنت کو تھامے رکھنا۔

ملا علی القاری ؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: 
خلفائے راشدین نے اصل میں آپ ﷺ ہی کی سنت پر عمل کیا اور ان کی طرف سنت کی نسبت یا تو اس لئے ہوئی کہ انہوں نے اس پر عمل کیا یا اس لئے کہ انہوں نے آپ ﷺ کی سنت سے استنباط کر کے اس کو اختیار کیا۔( مرقاۃ ج ا،ص: ۳۰ )

حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(حدیث میں لفظ سبت)

حدیث میں لفظ سنت

بطور قانون اور دین کا اصل مصدر استعمال ہوا ہے۔آپﷺنے ارشاد فرمایا:
تَرَکْتُ فِیْکُمْ أَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَھُمَا: کِتَابُ اﷲِ وَ سُنَّتِیْ۔“میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ان کے ہوتے ہوئے تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے ا ﷲ کی کتاب اور میری سنت۔ 

النِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ۔ نکاح کرنا میری سنت ہے جو بھی اس سے منہ موڑے گا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔
نکاح میں گواہ، حق ِ مہر اور ولی کی موجودگی ہوتی ہے نیز یہ علانیہ ہوتا ہے جبکہ زنا، متعہ یا حلالہ میں کوئی شے بھی ان میں سے نہیں ہوتی اس لئے یہ ممنوع اور حرام ہے ۔یہ بھی سنت سے ہی ثابت ہے۔ اسی طرح اپنی طرف سے کسی اچھے اور بھلے طریقے کو سنت قرار دینا بھی غلط ہے۔

صحیح بخاری (ح: ۸۹۸) میں ہے: 
آپ ﷺ نے عید الأضحی کے دن ترتیب میں نماز کو پہلے اور قربانی کو بعد میں رکھا ہے اور فرمایا: 
جس نے ہماری ترتیب پر عمل کیا فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا۔ اس نے یقیناً ہماری سنت پر عمل کیا۔

(ح: ۱۵۵۰) میں ہے: 
حج کے موقع پر حجاج کو سیدنا ابن عمرؓ نے فرمایا:
إِنْ کّنْتَ تُرِیدُ السُّنَّۃَ۔۔۔۔ اگر سنت پر عمل کا ارادہ ہے تو خطبہ مختصر کرو اور وقوف میں جلدی کرو۔

(ح: ۱۴۶۱) میں ہے: 
سیدنا عثمانؓ نے حج تمتع سے منع فرمایا تو سیدنا علیؓ نے حج تمتع کا احرام باندھا اور فرمایا: 
میں کسی کے قول پر سنت رسول کو نہیں چھوڑ سکتا۔

(ح: ۳۷۶) میں ہے :
سیدنا حذیفہ ؓ نے جلدباز نمازی کو دیکھ کر فرمایا: 
تو ایسی نماز پڑھتے پڑھتے مر گیا تو تیری موت سنت رسول پر نہیں ہوگی۔

(ح: ۱۵۹۸) میں ہے :
ابن عمر ؓ نے ایک شخص کو جو اونٹ ذبح کررہا تھا فرمایا: 
اسے کھڑا کرکے اس کا گھٹنا باندھو اور سنت کے مطابق اسے نحر کرو۔

(ح: ۲۳۸۳) میں ہے:
آپ ﷺ نے اپنا مشروب دائیں طرف سے شروع کیا جبکہ بائیں طرف ابوبکر تشریف فرماتھے۔ انسؓ یہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 
یہی سنت ہے ۔ یہی سنت ہے۔ یہی سنت ہے۔

یہ چند نمونے ہیں کہ سنت کا اطلاق ۔۔علماء اسلاف۔۔ کے ہاں عمومی طور پر ہر اس قول وعمل اور تقریررسول پر ہوا جو کفار کے مذہبی شعائر، عادات ، کلچر ، تہذیب یا جاہلی رسوم وعادات کے خلاف تھا۔ یہ شخصی مزاج نہیں اور نہ ہی قومی طرز معاشرت ہے کہ جس کاتعلق ایک خاص عہد کے تمدن سے ہو۔اس لئے صحیح عقائد، عبادات ومعاملات کے احکام، سیاسی، اجتماعی، اقتصادی ثقافتی، تربیتی، فکری، صلح وجنگ میں قومی اور بین الاقوامی قوانین وضابطے حدیث رسول مہیا کرتی ہے۔

حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(سنت قرآن میں)

سنت، قرآن میں

لفظ سنت مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
قرآن مجید میں یہ لفظ پسندیدہ و مختار راستہ کے معنی ہی میں استعمال ہوا ہے مثلاً:
{سُنَّۃَ مَنْ قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُّسُلِنَا۔۔} ( الإسراء:۷۷ ) یہی وہ راستہ ہے جس پر ہم نے آپ سے قبل اپنے رسولوں کو بھیجا۔

آیات قرآنیہ میں سنت کا مفہوم: 
مثلاً : کفار کے بارے میں کڑھنا اور متفکر رہنا یہ سنت رسول ہے۔
{لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ أَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ} (الشعراء: ۳) شاید آپ اپنے آپ کو گھلا دیں گے کہ یہ مومن کیوں نہیں ہورہے۔

ساتھی کو مستقبل کا فکر نہ کرنے اور رب پر بھروسہ کی تسلی دینا یہ بھی سنت ہے۔
{إذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہِ لَا تَحْزَنْ إنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔۔} جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے مت غم کر بے شک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔

رب کریم کے احسانات اور انعامات کا ذکر کرنا بھی سنت رسول ہے۔
{فَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ} تو اپنے رب کے انعامات کو بیان وظاہر کیجئے۔

رسول کا رات کو قیام کرنا، نمازیوں میں آپ کا اٹھنا بیٹھنا اور تادم آخر اللہ کی عبادت پر جمے رہنا یہ بھی سنت رسول ہے۔
{الَّذِیْ یَرَاکَ حِیْنَ تَقُوْمُ، وَتَقَلُّبُکَ فِی السَّاجِدِیْنَ} وہ جو تمہیں دیکھتا ہے جب تم قیام کرتے ہو اور سجدہ کرنے والوں کے ساتھ تم بھی ہوتے ہو۔

Sunday, November 18, 2018

1030:کتنی مسافت پر نماز قصر کرنا جائز ہے؟

سوال
سوال: کیا میں اس وقت قصر نماز پڑھ سکتا ہوں جب مجھے پتا ہو کہ واپسی پر نماز کا وقت نکل جائے گا؟ اور کیا 80 کلومیٹر قصر کی مسافت آنے اور جانے دونوں جانب کی شمار ہو گی یا صرف جانے کی 80 کلومیٹر مسافت ہو گی؟

الحمد اللہ:

جس سفر کی بنا پر سفر کی رخصتوں پر عمل کرنا شرعی عمل ہے اس سے مراد ایسا سفر ہے جو عرف میں بھی سفر ہو اس کا اندازہ تقریباً 80 کلومیٹر ہے، چنانچہ جو شخص 80 کلومیٹر یا اس سے زیادہ سفر کرے تو اس کیلیے سفر کی رخصتوں پر عمل کرنا جائز ہے، جیسے کہ موزوں پر مسح کی مدت تین دن اور راتیں ، نمازیں جمع اور قصر کر کے ادا کرنا اسی طرح رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت۔

نیز یہ مسافر اگر اپنی منزل پر پہنچ  کر چار یا اس سے زیادہ دن ٹھہرنے کا ارادہ کر لے تو پھر وہ سفر کی رخصتوں پر عمل نہیں کرے گا اور اگر وہاں پر چار  دن یا اس سے کم دن ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو پھر سفر کی رخصتوں پر عمل کرے گا۔

اور ایسا مسافر جو کسی علاقے میں قیام پذیر ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ اس کا کام کب مکمل ہو جائے گا اور نہ ہی اس نے اپنے قیام کی مدت متعین کی ہوئی ہو تو وہ سفر کی رخصتوں پر عمل کر سکتا ہے چاہے سفر کی مدت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔

خلاصہ یہ ہے کہ:

سفر کی رخصتوں پر عمل کرنے کیلیے یک طرفہ سفر کی مسافت 80 کلومیٹر ہونا شرط ہے، اور جب آپ کی کسی علاقے میں قیام پذیر ہونے کی مدت چار دن یا اس سے زیادہ ہو تو پھر آپ نماز مکمل پڑھیں گے۔

جب کہ  ظہر اور عصر ، اسی طرح مغرب اور عشا کی نمازوں  کو جمع کر کے ادا کرنا مسافر کیلیے جائز ہے، اسی طرح مقیم کیلیے بھی جائز ہےاگر ہر نماز وقت پر ادا کرنا مشقت کا باعث ہو  مثلاً: بیماری یا کسی انتہائی ضروری کام کی وجہ سے کہ اسے مؤخر کرنے کی کوئی صورت نہ ہو ، جیسے کہ  طلبا کا امتحان جاری ہے یا ڈاکٹر آپریشن میں مصروف ہے یا اسی طرح کا کوئی اور ضروری کام  تو  دو نمازوں کا جمع کرنا جائز ہے۔

واللہ اعلم

1029:منی اور مذی کے اوصاف میں فرق، اور کیا منی پاک ہے؟


سوال
منی اور مذی میں کیسے فرق کر سکتا ہوں، کیا اس کی بو سے اس میں فرق کیا جا سکتا ہے؟اور کیا منی پاک ہے. ؟
الحمد للہ:

منی اور مذی کے ما بین تین بنیادی فرق ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:

1- منی کا خروج اچھل کر اور بھر پور طاقت کے ساتھ ہوتا ہے، جبکہ مذی اچھلے بغیر خارج ہوتی ہے، بلکہ بسا اوقات انسان کو منی خارج ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا۔

2- منی گاڑھا ، سفید اور کثیف مادہ ہوتا ہے، اس کی بو گوندھے ہوئے آٹے جیسے ہوتی ہے، جبکہ مذی شفاف، لیس دار ، پتلا اور بے بو مادہ ہوتا ہے۔

3- منی خارج ہونے کے بعد شہوت ماند پڑ جاتی ہے جبکہ مذی خارج ہونے سے جسم میں شہوت کم نہیں ہوتی۔

امام نووی رحمہ اللہ "المجموع" (2/141)  میں کہتے ہیں:
"ان تینوں فروق میں سے کوئی ایک بھی  ہو تو خارج ہونے والا مادہ منی ہو گا، تینوں کا یک جا ہونا شرط نہیں ہے؛ چنانچہ اگر ان تینوں میں سے کوئی بھی علامت نہ ہو تو خارج ہونے والا مادہ منی نہیں ہو گا" انتہی

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (4/138) میں ہے کہ:
"منی سفید اور گاڑھا سیال مادہ ہوتا ہے جو کہ آلہ تناسل سے لذت کے ساتھ اچھل کر نکلتا ہے، منی خارج ہونے کے بعد انسان جسم میں ڈھیلا پن  محسوس کرتا ہے، نیز صحیح موقف کے مطابق منی پاک ہے، اگر کپڑوں پر منی لگ جائے تو اسے دھونا یا کھرچ دینا  مستحب ہے، اگر انسان کی منی خارج ہو جائے تو اس سے غسل واجب ہوتا ہے، چاہے منی کا اخراج جماع کی وجہ سے ہو یا احتلام کی صورت میں، البتہ اگر منی کا خروج لذت کے بغیر بیماری یا سخت سردی کی وجہ سے ہو  تو اس سے غسل واجب نہیں ہوتا، تاہم اس سے وضو ٹوٹ جائے گا اور وضو کرنا ہو گا۔

مذی: پتلا ، سفید   اور لیس دار مادہ ہوتا ہے جو کہ بیوی کے ساتھ رومانس کرتے  ہوئے یا جماع کے متعلق سوچتے ہوئے اچھلے بغیر خارج ہوتا ہے، مذی خارج ہونے کے بعد جسم میں ڈھیلا پن بھی نہیں آتا، مذی نجس ہے اور اس کے نکلنے پر وضو  ٹوٹ جائے گا نیز آلہ تناسل کو دھونا ہو گا، جسم اور کپڑوں کے جس حصے پر لگے اس پر پانی کے چھینٹے مارنا ضروری ہے۔

ودی: گاڑھا اور سفید مادہ ہوتا ہے جو کہ آلہ تناسل سے پیشاب کرنے کے بعد خارج ہوتا ہے، یہ نجس ہوتا ہے اور اس سے وضو کرنا لازمی ہو گا" انتہی

واللہ اعلم

Tuesday, November 13, 2018

1028: کیا کیش بیک لینا حلال ہے.؟

س-حضرت آجکل آن لائن خریداری کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اس میں سے چند مشہور ویبسائٹ جو اپنے گاہک کو کیشبیک (cashback(کی خدمت مہیا کرتی ہے (کیش بیک اگر ہم نے پانچ سو روپیہ کی کوئی چیز خیدی تو اس پر ٪۵۰یا پہر ٪۷۵ فیصد تک پچاس یا پچہتر روپیہ واپس ملتا ہے ) تو کیا کیشبیک کے طور پر ملنے والے روپیہ لینا جائز ہے ؟

الحمدللہ

آن لائن خریداری کی صورت میں جو رقم کیش بیک کے طور پر بائع کی جانب سے واپس ملتی ہے وہ چھوٹ اور رعایت ہے اس کو لینے میں مضائقہ نہیں جائز ہے، لیکن آن لائن خریداری میں اس کا خیال رکھیں کہ بیع وشراء کا معاملہ شرعی اصول کی روشنی میں صحیح ہونا چاہیے کیوں کہ اکثر دھوکہ ہوتا ہے کبھی مبیع معدوم ہوتی ہے کبھی حقیقت برعکسہوتی ہے اور اکثر مبیع پر قبضہ نہیں ہوتا اس کے بغیر ہی ایک دوسرے کو بیچنے خریدنے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اس لیے شرعی طریقے پر معاملہ کرنا چاہیے۔

واللہ اعلم

Sunday, November 11, 2018

حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(سنت کا تعارف)

سنت کا تعارف



سنت کا لغوی مفہوم
سنت کا لفظ سَنَّ یَسِنُّ سَنٌّ سے بطور اسم ماخوذ ہے ۔ سَن کا معنی ہے کسی شے کا آسانی سے چلنا ۔ پے در پے ایک دوسرے کے پیچھے ہونا ۔(لسان العرب ومقاییس اللغۃ: مادہ: س ن ن)ابن فارس لکھتے ہیں: یہ لفظ ایک ہے مگر عربی زبان میں اس کے کئی معانی ہیں جن کا مرجع ایک ہی لفظ سن ہے۔
السِّیْنُ وَالنُّونُ أَصْلٌ وَاحِدٌ مُطَّرَدٌ یَدُلُّ عَلَی جَرَیَانِ الشَّئِ بِالسُّہُوْلَۃِ
س اور ن جس لفظ کی بنیاد ہو اس کے معنی میں کسی بھی شے کا بسہولت جاری وساری رہنا ہوا کرتا ہے۔
لفظ سنت عربوں کے اس قول سے لیا گیا ہے: سَنَنْتُ الْمَائَ عَلَی وَجْہٍ أَسُنُّہُ سَناًّ: میں نے پانی کو ایک راستہ دے کر چلایا۔یعنی جب اسے میں نے چھوڑ دیا۔ اسی سے لفظ سنت مشتق ہے۔ جس کا مطلب ہے: راستہ یا طریقہ۔



خالد بن عتبہ الہندلی کہتا ہے:
فَلاَ تَجْزَعَنْ مِنْ سِیْرَۃٍ أَنْتَ سِرْتَہَا وَأَوَّلُ رَاضٍ سُنَّۃَ مَنْ یَسِیْرُہَا
اس سیرت پراب جزع فزع مت کرو جس پہ تم چلے جو ایسے راستوں پر چلتا ہے وہ اس سے ابتداء ًراضی ہوتا ہے۔



سیدنا حسان ؓبن ثابت کا شعر(دیوان حسان ۲۰۴) میں ہے:
إِنَّ الذَّوَائِبَ مِنْ فِہْرٍ وَإِخْوَتِہِمْ قَدْ بَیَّنُوْا سُنَّۃً لِلنَّاسِ تُتَّبَعُ
قبیلہ فہرکے بھیڑیوں نے اور ان کے بھائیوں نے لوگوں کوایک ایسا راستہ بتادیا ہے جسے وہ اپنا رہے ہیں۔



سیدنالبیدرضی اللہ عنہ کا (شرح المعلقات: ۲۲۷)میں شعر ہے:
مِنْ مَعْشَرٍ سَنَّتْ لَہُمْ آبَائُ ہُمْ وَلِکُلِّ قَوْمٍ سُنَّۃٌ وَإِمَامُہَا
کتنے گروہ ہیں جن کے لئے ان کے آباء نے طریقے چھوڑ دئے اور ہر قوم کا ایک طریقہ ہوتا ہے اور اس کا امام بھی۔



لغت میں سنت وہ طریقہ یا چال چلن جس پر انسان بڑے محتاط طریقے سے چلے اور عمل کرے۔ خواہ وہ عادت و سیرت اچھی ہو یا بری۔ا س کی جمع سُنَن یا سَنَن آتی ہے۔ عموماً یہ لفظ اچھے مفہوم میں مستعمل ہوتا ہے مگر برے مفہوم کے لئے مقید ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

مَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہُ أَجْرُھَا وَ أَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا إِلٰی یومِ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ سَنَّ سُنَّۃً فِی الْإسْلَامِ سَیِّئَۃً فَعَلَیْہِ وِزْرُھَا وَوِزْرُمَنْ عَمِلَ بِھَا ِإلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ 
(صحیح مسلم)جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تو اسے اس کا اجر ملے گا اور اس کا بھی اجر ملے گا جو قیامت تک اس پر عمل کرے گا اور جس نے اسلام میں برا طریقہ جاری کیا اس پر اس برائی کا گناہ بھی ہو گا اور اس کا گناہ بھی جو قیامت تک اس پر عمل کرے گا۔



علاوہ ازیں یہ لفظ بمعنی عادت کے بھی ہے:
{ سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ۔۔۔}
{سُنَّۃَ مَنْ قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُّسُلِنَا۔۔}(الإسراء: ۷۷) یعنی جنہوں نے ہمارے رسولوں کا کفر کیا ان کے بارے میں ہماری یہی عادت رہی ہے اور انہوں نے اپنے درمیان سے رسول کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا تو ان پر ہمارا عذاب آتا ہے۔

Monday, October 29, 2018

1027:نبی ﷺ نور تھے یا بشر.؟


سوال: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے یا بشر؟ اور کیا یہ درست ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا، چاہے آپ روشنی ہی میں کیوں نہ ہوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ:

ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدِ اولاد آدم ہیں، آپ آدم علیہ السلام کی نسل میں سے بشر ہیں، اور ماں باپ سے پیدا ہوئے، آپ کھاتے پیتے بھی تھے، اور آپ نے شادیاں بھی کیں، آپ بھوکے بھی رہے، اور بیمار بھی ہوئے، آپکو بھی خوشی و غمی کا احساس ہوتا تھا، اور آپکے بشر ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ آپکو بھی اللہ تعالی نے اسی طرح وفات دی جیسے وہ دیگر لوگوں کو موت دی، لیکن جس چیز سے آپ کو امتیاز حاصل ہے وہ نبوت، رسالت، اور وحی ہے۔

جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ )

ترجمہ:آپ کہہ دیں: میں یقینا تمہارے جیسا ہی بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہےکہ بیشک تمہارا الہ ایک ہی ہے۔ الكهف/110

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشری حالت بالکل ایسے ہی تھی جیسے دیگر انبیاء اور رسولوں کی تھی۔

ایک مقام پر اللہ تعالی نے [انبیاء کی بشریت کے متعلق ] فرمایا:

( وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ )

ترجمہ:اور ہم نے ان[انبیاء] کو ایسی جان نہیں بنایا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں، اور نہ ہی انہیں ہمیشہ رہنے والا بنایا۔ الأنبياء/8

جبکہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت پر تعجب کرنے والوں کی تردید بھی کی اور فرمایا:

( وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الأَسْوَاقِ )

ترجمہ:[ان کفار نے رسول کی تردید کیلئے کہاکہ ] یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے، اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے۔ الفرقان/7

چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور بشریت کے بارے میں جو قرآن نے کہہ دیا ہے اس سے تجاوز کرنا درست نہیں ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کہنا، یا آپکے بارے میں عدم سایہ کا دعوی کرنا ، یا یہ کہنا کہ آپکو نور سے پیدا کیا گیا ، یہ سب کچھ اس غلو میں شامل ہے جس کے بارے میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: (مجھے ایسے بڑھا چڑھا کر بیان نہ کرو جیسے عیسی بن مریم کو نصاری نے بڑھایا، بلکہ [میرے بارے میں]کہو: اللہ کا بندہ اور اسکا رسول) بخاری (6830)

اور یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ صرف فرشتے نور سے پیدا ہوئے ہیں، آدم علیہ السلام کی نسل میں سے کوئی بھی نور سے پیدا نہیں ہوا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، اور ابلیس کو دہکتی ہو آگ سے، اور آدم علیہ السلام کو اس چیز سے پیدا کیا گیا جو تمہیں بتلادی گئی ہے) مسلم (2996)

شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ (458)میں کہا:

"اس حدیث میں لوگوں کی زبان زد عام ایک حدیث کا رد ہے، وہ ہے: (اے جابر! سب سے پہلے جس چیز کو اللہ تعالی نے پیدا کیا وہ تیرے نبی کا نور ہے)!اور اسکے علاوہ ان تمام احادیث کا بھی رد ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور سے پیدا ہوئے، کیونکہ اس حدیث میں واضح صراحت موجود ہے کہ جنہیں نور سے پیدا کیا گیا ہے وہ صرف فرشتے ہیں، آدم اور آدم کی نسل اس میں شامل نہیں ہیں، اس لئے خبردار رہو، غافل نہ بنو" انتہی۔

دائمی فتوی کمیٹی سے مندرجہ ذیل سوال پوچھا گیا:

"ہمارے ہاں پاکستان میں بریلوی فرقہ کے علماء کا نظریہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا، اور اس سے آپکے بشر نہ ہونی کی دلیل ملتی ہے، تو کیا یہ بات درست ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا؟

تو انہوں نے جواب دیا:

یہ باطل قول ہے، جو کہ قرآن وسنت کی صریح نصوص کے خلاف ہے، جن میں صراحت کے ساتھ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے، اور بشر ہونے کے ناطے آپ لوگوں سے کسی بھی انداز میں مختلف نہیں تھے، اور آپکا سایہ بھی تھا جیسے ہر انسان کا ہوتا ہے، اور اللہ تعالی نے آپ کو رسالت دے کر جو کرم نوازی فرمائی اسکی بنا پر آپ کی والدین ذریعے پیدائش اور بشریت سے باہر نہیں ہوجاتے، اسی لئے تو اللہ تعالی نے فرمایا: ( قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحَى إِلَيَّ ) کہہ دیں : کہ میں تو تمہارے جیسا ہی بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام پر رسولوں کا قول قرآن مجید میں ذکر کیا: ( قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَحْنُ إِلاْ بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ) انہیں رسولوں نے کہابھی: ہم تو تمہارے جیسے ہی بشر ہیں۔

جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کی جانے والی روایت کہ آپکو اللہ کے نور سے پیدا کیا گیا، یہ حدیث موضوع ہے"

اقتباس از: "فتاوى اللجنة الدائمة" (1/464)

Thursday, October 25, 2018

1025- کیا حضرت آدم علیہ السلام نے نبی کریم ﷺ کا وسیلہ مانگا تھا؟

بعض علماء کرام کو یہ کہتے ہوئے سنا ہیکہ جب حضرت آدم علیہ السلام سے غلطی ہوئی اور وہ زمین پر بھیج دیے گئے تب انہوں نے بہت دعائیں کی لیکن ان کی کوئی دعا قبول نہیں ہوئی، لیکن جب نبی کریم ﷺ کا واسطہ انہوں نے دیا تو ان کی دعا قبول ہوگئی، کیا یہ بات درست ہے.؟

الحمدللہ

امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
حدثنا أبو سعيد عمرو بن محمد بن منصور العدل، ثنا أبو الحسن محمد بن إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، ثنا أبو الحارث عبد الله بن مسلم الفهري، ثنا إسماعيل بن مسلمة، أنبأ عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، عن أبيه، عن جده، عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لما اقترف آدم الخطيئة قال: يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي، فقال الله: يا آدم، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه؟ قال: يا رب، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك، فقال الله: صدقت يا آدم، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك[المستدرك على الصحيحين للحاكم 2/ 672]

حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے جب وہ لغزش ہوگئی (جس کی وجہ سے جنت سے دُنیا میں بھیج دئیے گئے تو ہر وقت روتے تھے اور دعا و استغفار کرتے رہتے تھے) ایک مرتبہ آسمان کی طرف منہ کيا اور عرض کیایا اللہ محمد (ﷺ) کے وسیلہ سے تجھ سے مغرفت چاہتا ہوں وحی نازل ہوئی کہ محمدﷺ کون ہیں؟ (جن کے واسطے سے تم نے استغفارکی) عرض کیا کہ جب آپ نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا تها لاَ اِله اِلاً اﷲ مُحَمًدُ رَسُولُ اﷲ تو میں سمجھ گیا تھا کہ محمدﷺ سے اونچی ہستی کوئی نہیں ہے جس کا نام آپ نے اپنے نام کے ساتھ رکھا، وحی نازل ہوئی کہ وہ خاتم النبیینﷺ ہیں تماری اولاد میں سے ہیں اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کیے جاتے

یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے تفصیل ملاحظہ ہو:

امام ذہبی رحمہ اللہ مستدرک کی تلخیص میں اس روایت کے بارے میں کہا:
بل موضوع
بلکہ یہ روایت موضوع اورمن گھڑت ہے[المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 2/ 672]

اس کی سند میں”عبد الله بن مسلم الفهري“ موجود ہے ۔
اوریہ کذاب اور بہت بڑا جھوٹاشخص ہے۔

امام ذہبی رحمہ اللہ نے میزان میں عبداللہ بن مسلم الفہری کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی اس روایت کوجھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا:
عبد الله بن مسلم ، أبو الحارث الفهري.روى عن إسماعيل بن مسلمة ابن قعنب، عن عبد الرحمن بن يزيد بن سلم خبرا باطلا فيه: يا آدم لولا محمد ما خلقتك.رواه البيهقى في دلائل النبوة.
عبداللہ بن مسلم ،ابوالحارث الفہری،اس نے اسماعیل بن مسلمہ ابن قعنب ،عن عبدالرحمن بن یزید بن اسلم سے ایک جھوٹی روایت بیان کی ہے جس میں ہے کہ اے ادم اگر محمدنہ ہوتے تو میں تمہیں پیدانہ کرتا ،اسے بیہقی نے دلائل النبوہ میں روایت کیا ہے[ميزان الاعتدال للذهبي: 2/ 504]

حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی یہ بات لسان المیزان میں نقل کی ہے اور کوئی تعاقب نہیں کیا ہے دیکھئے:[لسان الميزان لابن حجر: 3/ 359]

اس کی سند میں ایک اور راوی ”عبد الرحمن بن زيد بن أسلم“ ہے ۔
اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے چنانچہ:

ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، وقد أجمعوا على ضعفه
عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔[إخبار أهل الرسوخ في الفقه والتحديث بمقدار المنسوخ من الحديث ص: 49]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے:
قلت: عبد الرحمن متفق على تضعيفه.
میں (ابن حجر) کہتاہوں کہ عبدالرحمن بن زید کے ضعیف ہونے پراتفاق واجماع ہے[إتحاف المهرة لابن حجر: 12/ 98]

بے چارے دیوبندی حضرات گلی گلی چلاتے ہیں کہ اہل حدیث اجماع نہیں مانتے اور یہاں جس راوی کے ضعیف ہونے پر اجماع ہےاس کی روایت سے بھی استدلال کرتے نہیں شرماتے ۔اور اس اجماع کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔

یہ راوی بالاجماع ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ جھوٹی اور من گھرٹ احادیث بھی روایت کرتا تھا چنانچہ:

امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه
عبدالرحمن بن زید بن اسلم ،اس نے اپنے والد سےموضوع اور من گھڑت احادیث بیان کی ہیں اور اہل فن میں سے جو بھی ان احادیث پر غور کرے گا اس سے سامنے یہ واضح ہوجائے گا کہ ان احادیث کے گھڑنے کی ذمہ داری اسی پر ہے[المدخل إلى الصحيح ص: 154]

امام حاکم رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوا کہ یہ ”عبدالرحمن بن زید بن اسلم “ بھی حدیث گھڑنے والا راوی ہے۔

لہٰذا اس حدیث کے موضوع اور من گھڑت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے واضح طور پر اسے موضوع اور من گھڑت کہاہے جیساکہ اوپر حوالہ دیا گیا

واللہ اعلم

٢٣٥- کیا مرغ یا انڈے کی قربانی جائز ہے.؟

✍🏻مجاہدالاسلام عظیم آبادی سوال-مدعیان عمل بالحدیث کا ایک گروہ مرغ کی قربانی کو مشروع اورصحابہ کرام کا معمول بہ قرار دیتا ہے۔اور ان میں سے ...