Sunday, December 16, 2018
حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(سنت،کتاب اللہ بھی ہے)
حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(سنت خلفاء راشدین)
حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(حدیث میں لفظ سبت)
حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(سنت قرآن میں)
Sunday, November 18, 2018
1030:کتنی مسافت پر نماز قصر کرنا جائز ہے؟
سوال
سوال: کیا میں اس وقت قصر نماز پڑھ سکتا ہوں جب مجھے پتا ہو کہ واپسی پر نماز کا وقت نکل جائے گا؟ اور کیا 80 کلومیٹر قصر کی مسافت آنے اور جانے دونوں جانب کی شمار ہو گی یا صرف جانے کی 80 کلومیٹر مسافت ہو گی؟
الحمد اللہ:
جس سفر کی بنا پر سفر کی رخصتوں پر عمل کرنا شرعی عمل ہے اس سے مراد ایسا سفر ہے جو عرف میں بھی سفر ہو اس کا اندازہ تقریباً 80 کلومیٹر ہے، چنانچہ جو شخص 80 کلومیٹر یا اس سے زیادہ سفر کرے تو اس کیلیے سفر کی رخصتوں پر عمل کرنا جائز ہے، جیسے کہ موزوں پر مسح کی مدت تین دن اور راتیں ، نمازیں جمع اور قصر کر کے ادا کرنا اسی طرح رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت۔
نیز یہ مسافر اگر اپنی منزل پر پہنچ کر چار یا اس سے زیادہ دن ٹھہرنے کا ارادہ کر لے تو پھر وہ سفر کی رخصتوں پر عمل نہیں کرے گا اور اگر وہاں پر چار دن یا اس سے کم دن ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو پھر سفر کی رخصتوں پر عمل کرے گا۔
اور ایسا مسافر جو کسی علاقے میں قیام پذیر ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ اس کا کام کب مکمل ہو جائے گا اور نہ ہی اس نے اپنے قیام کی مدت متعین کی ہوئی ہو تو وہ سفر کی رخصتوں پر عمل کر سکتا ہے چاہے سفر کی مدت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ:
سفر کی رخصتوں پر عمل کرنے کیلیے یک طرفہ سفر کی مسافت 80 کلومیٹر ہونا شرط ہے، اور جب آپ کی کسی علاقے میں قیام پذیر ہونے کی مدت چار دن یا اس سے زیادہ ہو تو پھر آپ نماز مکمل پڑھیں گے۔
جب کہ ظہر اور عصر ، اسی طرح مغرب اور عشا کی نمازوں کو جمع کر کے ادا کرنا مسافر کیلیے جائز ہے، اسی طرح مقیم کیلیے بھی جائز ہےاگر ہر نماز وقت پر ادا کرنا مشقت کا باعث ہو مثلاً: بیماری یا کسی انتہائی ضروری کام کی وجہ سے کہ اسے مؤخر کرنے کی کوئی صورت نہ ہو ، جیسے کہ طلبا کا امتحان جاری ہے یا ڈاکٹر آپریشن میں مصروف ہے یا اسی طرح کا کوئی اور ضروری کام تو دو نمازوں کا جمع کرنا جائز ہے۔
واللہ اعلم
1029:منی اور مذی کے اوصاف میں فرق، اور کیا منی پاک ہے؟
سوال
منی اور مذی میں کیسے فرق کر سکتا ہوں، کیا اس کی بو سے اس میں فرق کیا جا سکتا ہے؟اور کیا منی پاک ہے. ؟
الحمد للہ:
منی اور مذی کے ما بین تین بنیادی فرق ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:
1- منی کا خروج اچھل کر اور بھر پور طاقت کے ساتھ ہوتا ہے، جبکہ مذی اچھلے بغیر خارج ہوتی ہے، بلکہ بسا اوقات انسان کو منی خارج ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا۔
2- منی گاڑھا ، سفید اور کثیف مادہ ہوتا ہے، اس کی بو گوندھے ہوئے آٹے جیسے ہوتی ہے، جبکہ مذی شفاف، لیس دار ، پتلا اور بے بو مادہ ہوتا ہے۔
3- منی خارج ہونے کے بعد شہوت ماند پڑ جاتی ہے جبکہ مذی خارج ہونے سے جسم میں شہوت کم نہیں ہوتی۔
امام نووی رحمہ اللہ "المجموع" (2/141) میں کہتے ہیں:
"ان تینوں فروق میں سے کوئی ایک بھی ہو تو خارج ہونے والا مادہ منی ہو گا، تینوں کا یک جا ہونا شرط نہیں ہے؛ چنانچہ اگر ان تینوں میں سے کوئی بھی علامت نہ ہو تو خارج ہونے والا مادہ منی نہیں ہو گا" انتہی
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (4/138) میں ہے کہ:
"منی سفید اور گاڑھا سیال مادہ ہوتا ہے جو کہ آلہ تناسل سے لذت کے ساتھ اچھل کر نکلتا ہے، منی خارج ہونے کے بعد انسان جسم میں ڈھیلا پن محسوس کرتا ہے، نیز صحیح موقف کے مطابق منی پاک ہے، اگر کپڑوں پر منی لگ جائے تو اسے دھونا یا کھرچ دینا مستحب ہے، اگر انسان کی منی خارج ہو جائے تو اس سے غسل واجب ہوتا ہے، چاہے منی کا اخراج جماع کی وجہ سے ہو یا احتلام کی صورت میں، البتہ اگر منی کا خروج لذت کے بغیر بیماری یا سخت سردی کی وجہ سے ہو تو اس سے غسل واجب نہیں ہوتا، تاہم اس سے وضو ٹوٹ جائے گا اور وضو کرنا ہو گا۔
مذی: پتلا ، سفید اور لیس دار مادہ ہوتا ہے جو کہ بیوی کے ساتھ رومانس کرتے ہوئے یا جماع کے متعلق سوچتے ہوئے اچھلے بغیر خارج ہوتا ہے، مذی خارج ہونے کے بعد جسم میں ڈھیلا پن بھی نہیں آتا، مذی نجس ہے اور اس کے نکلنے پر وضو ٹوٹ جائے گا نیز آلہ تناسل کو دھونا ہو گا، جسم اور کپڑوں کے جس حصے پر لگے اس پر پانی کے چھینٹے مارنا ضروری ہے۔
ودی: گاڑھا اور سفید مادہ ہوتا ہے جو کہ آلہ تناسل سے پیشاب کرنے کے بعد خارج ہوتا ہے، یہ نجس ہوتا ہے اور اس سے وضو کرنا لازمی ہو گا" انتہی
واللہ اعلم
Tuesday, November 13, 2018
1028: کیا کیش بیک لینا حلال ہے.؟
س-حضرت آجکل آن لائن خریداری کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اس میں سے چند مشہور ویبسائٹ جو اپنے گاہک کو کیشبیک (cashback(کی خدمت مہیا کرتی ہے (کیش بیک اگر ہم نے پانچ سو روپیہ کی کوئی چیز خیدی تو اس پر ٪۵۰یا پہر ٪۷۵ فیصد تک پچاس یا پچہتر روپیہ واپس ملتا ہے ) تو کیا کیشبیک کے طور پر ملنے والے روپیہ لینا جائز ہے ؟
الحمدللہ
آن لائن خریداری کی صورت میں جو رقم کیش بیک کے طور پر بائع کی جانب سے واپس ملتی ہے وہ چھوٹ اور رعایت ہے اس کو لینے میں مضائقہ نہیں جائز ہے، لیکن آن لائن خریداری میں اس کا خیال رکھیں کہ بیع وشراء کا معاملہ شرعی اصول کی روشنی میں صحیح ہونا چاہیے کیوں کہ اکثر دھوکہ ہوتا ہے کبھی مبیع معدوم ہوتی ہے کبھی حقیقت برعکسہوتی ہے اور اکثر مبیع پر قبضہ نہیں ہوتا اس کے بغیر ہی ایک دوسرے کو بیچنے خریدنے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اس لیے شرعی طریقے پر معاملہ کرنا چاہیے۔
واللہ اعلم
Sunday, November 11, 2018
حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(سنت کا تعارف)
Monday, October 29, 2018
1027:نبی ﷺ نور تھے یا بشر.؟
سوال: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے یا بشر؟ اور کیا یہ درست ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا، چاہے آپ روشنی ہی میں کیوں نہ ہوں؟
جواب کا متن
الحمد للہ:
ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدِ اولاد آدم ہیں، آپ آدم علیہ السلام کی نسل میں سے بشر ہیں، اور ماں باپ سے پیدا ہوئے، آپ کھاتے پیتے بھی تھے، اور آپ نے شادیاں بھی کیں، آپ بھوکے بھی رہے، اور بیمار بھی ہوئے، آپکو بھی خوشی و غمی کا احساس ہوتا تھا، اور آپکے بشر ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ آپکو بھی اللہ تعالی نے اسی طرح وفات دی جیسے وہ دیگر لوگوں کو موت دی، لیکن جس چیز سے آپ کو امتیاز حاصل ہے وہ نبوت، رسالت، اور وحی ہے۔
جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ )
ترجمہ:آپ کہہ دیں: میں یقینا تمہارے جیسا ہی بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہےکہ بیشک تمہارا الہ ایک ہی ہے۔ الكهف/110
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشری حالت بالکل ایسے ہی تھی جیسے دیگر انبیاء اور رسولوں کی تھی۔
ایک مقام پر اللہ تعالی نے [انبیاء کی بشریت کے متعلق ] فرمایا:
( وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ )
ترجمہ:اور ہم نے ان[انبیاء] کو ایسی جان نہیں بنایا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں، اور نہ ہی انہیں ہمیشہ رہنے والا بنایا۔ الأنبياء/8
جبکہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت پر تعجب کرنے والوں کی تردید بھی کی اور فرمایا:
( وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الأَسْوَاقِ )
ترجمہ:[ان کفار نے رسول کی تردید کیلئے کہاکہ ] یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے، اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے۔ الفرقان/7
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور بشریت کے بارے میں جو قرآن نے کہہ دیا ہے اس سے تجاوز کرنا درست نہیں ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کہنا، یا آپکے بارے میں عدم سایہ کا دعوی کرنا ، یا یہ کہنا کہ آپکو نور سے پیدا کیا گیا ، یہ سب کچھ اس غلو میں شامل ہے جس کے بارے میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: (مجھے ایسے بڑھا چڑھا کر بیان نہ کرو جیسے عیسی بن مریم کو نصاری نے بڑھایا، بلکہ [میرے بارے میں]کہو: اللہ کا بندہ اور اسکا رسول) بخاری (6830)
اور یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ صرف فرشتے نور سے پیدا ہوئے ہیں، آدم علیہ السلام کی نسل میں سے کوئی بھی نور سے پیدا نہیں ہوا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، اور ابلیس کو دہکتی ہو آگ سے، اور آدم علیہ السلام کو اس چیز سے پیدا کیا گیا جو تمہیں بتلادی گئی ہے) مسلم (2996)
شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ (458)میں کہا:
"اس حدیث میں لوگوں کی زبان زد عام ایک حدیث کا رد ہے، وہ ہے: (اے جابر! سب سے پہلے جس چیز کو اللہ تعالی نے پیدا کیا وہ تیرے نبی کا نور ہے)!اور اسکے علاوہ ان تمام احادیث کا بھی رد ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور سے پیدا ہوئے، کیونکہ اس حدیث میں واضح صراحت موجود ہے کہ جنہیں نور سے پیدا کیا گیا ہے وہ صرف فرشتے ہیں، آدم اور آدم کی نسل اس میں شامل نہیں ہیں، اس لئے خبردار رہو، غافل نہ بنو" انتہی۔
دائمی فتوی کمیٹی سے مندرجہ ذیل سوال پوچھا گیا:
"ہمارے ہاں پاکستان میں بریلوی فرقہ کے علماء کا نظریہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا، اور اس سے آپکے بشر نہ ہونی کی دلیل ملتی ہے، تو کیا یہ بات درست ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
یہ باطل قول ہے، جو کہ قرآن وسنت کی صریح نصوص کے خلاف ہے، جن میں صراحت کے ساتھ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے، اور بشر ہونے کے ناطے آپ لوگوں سے کسی بھی انداز میں مختلف نہیں تھے، اور آپکا سایہ بھی تھا جیسے ہر انسان کا ہوتا ہے، اور اللہ تعالی نے آپ کو رسالت دے کر جو کرم نوازی فرمائی اسکی بنا پر آپ کی والدین ذریعے پیدائش اور بشریت سے باہر نہیں ہوجاتے، اسی لئے تو اللہ تعالی نے فرمایا: ( قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحَى إِلَيَّ ) کہہ دیں : کہ میں تو تمہارے جیسا ہی بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام پر رسولوں کا قول قرآن مجید میں ذکر کیا: ( قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَحْنُ إِلاْ بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ) انہیں رسولوں نے کہابھی: ہم تو تمہارے جیسے ہی بشر ہیں۔
جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کی جانے والی روایت کہ آپکو اللہ کے نور سے پیدا کیا گیا، یہ حدیث موضوع ہے"
اقتباس از: "فتاوى اللجنة الدائمة" (1/464)
Thursday, October 25, 2018
1025- کیا حضرت آدم علیہ السلام نے نبی کریم ﷺ کا وسیلہ مانگا تھا؟
بعض علماء کرام کو یہ کہتے ہوئے سنا ہیکہ جب حضرت آدم علیہ السلام سے غلطی ہوئی اور وہ زمین پر بھیج دیے گئے تب انہوں نے بہت دعائیں کی لیکن ان کی کوئی دعا قبول نہیں ہوئی، لیکن جب نبی کریم ﷺ کا واسطہ انہوں نے دیا تو ان کی دعا قبول ہوگئی، کیا یہ بات درست ہے.؟
الحمدللہ
امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
حدثنا أبو سعيد عمرو بن محمد بن منصور العدل، ثنا أبو الحسن محمد بن إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، ثنا أبو الحارث عبد الله بن مسلم الفهري، ثنا إسماعيل بن مسلمة، أنبأ عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، عن أبيه، عن جده، عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لما اقترف آدم الخطيئة قال: يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي، فقال الله: يا آدم، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه؟ قال: يا رب، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك، فقال الله: صدقت يا آدم، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك[المستدرك على الصحيحين للحاكم 2/ 672]
حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے جب وہ لغزش ہوگئی (جس کی وجہ سے جنت سے دُنیا میں بھیج دئیے گئے تو ہر وقت روتے تھے اور دعا و استغفار کرتے رہتے تھے) ایک مرتبہ آسمان کی طرف منہ کيا اور عرض کیایا اللہ محمد (ﷺ) کے وسیلہ سے تجھ سے مغرفت چاہتا ہوں وحی نازل ہوئی کہ محمدﷺ کون ہیں؟ (جن کے واسطے سے تم نے استغفارکی) عرض کیا کہ جب آپ نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا تها لاَ اِله اِلاً اﷲ مُحَمًدُ رَسُولُ اﷲ تو میں سمجھ گیا تھا کہ محمدﷺ سے اونچی ہستی کوئی نہیں ہے جس کا نام آپ نے اپنے نام کے ساتھ رکھا، وحی نازل ہوئی کہ وہ خاتم النبیینﷺ ہیں تماری اولاد میں سے ہیں اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کیے جاتے
یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے تفصیل ملاحظہ ہو:
امام ذہبی رحمہ اللہ مستدرک کی تلخیص میں اس روایت کے بارے میں کہا:
بل موضوع
بلکہ یہ روایت موضوع اورمن گھڑت ہے[المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 2/ 672]
اس کی سند میں”عبد الله بن مسلم الفهري“ موجود ہے ۔
اوریہ کذاب اور بہت بڑا جھوٹاشخص ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے میزان میں عبداللہ بن مسلم الفہری کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی اس روایت کوجھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا:
عبد الله بن مسلم ، أبو الحارث الفهري.روى عن إسماعيل بن مسلمة ابن قعنب، عن عبد الرحمن بن يزيد بن سلم خبرا باطلا فيه: يا آدم لولا محمد ما خلقتك.رواه البيهقى في دلائل النبوة.
عبداللہ بن مسلم ،ابوالحارث الفہری،اس نے اسماعیل بن مسلمہ ابن قعنب ،عن عبدالرحمن بن یزید بن اسلم سے ایک جھوٹی روایت بیان کی ہے جس میں ہے کہ اے ادم اگر محمدنہ ہوتے تو میں تمہیں پیدانہ کرتا ،اسے بیہقی نے دلائل النبوہ میں روایت کیا ہے[ميزان الاعتدال للذهبي: 2/ 504]
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی یہ بات لسان المیزان میں نقل کی ہے اور کوئی تعاقب نہیں کیا ہے دیکھئے:[لسان الميزان لابن حجر: 3/ 359]
اس کی سند میں ایک اور راوی ”عبد الرحمن بن زيد بن أسلم“ ہے ۔
اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے چنانچہ:
ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، وقد أجمعوا على ضعفه
عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔[إخبار أهل الرسوخ في الفقه والتحديث بمقدار المنسوخ من الحديث ص: 49]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے:
قلت: عبد الرحمن متفق على تضعيفه.
میں (ابن حجر) کہتاہوں کہ عبدالرحمن بن زید کے ضعیف ہونے پراتفاق واجماع ہے[إتحاف المهرة لابن حجر: 12/ 98]
بے چارے دیوبندی حضرات گلی گلی چلاتے ہیں کہ اہل حدیث اجماع نہیں مانتے اور یہاں جس راوی کے ضعیف ہونے پر اجماع ہےاس کی روایت سے بھی استدلال کرتے نہیں شرماتے ۔اور اس اجماع کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔
یہ راوی بالاجماع ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ جھوٹی اور من گھرٹ احادیث بھی روایت کرتا تھا چنانچہ:
امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه
عبدالرحمن بن زید بن اسلم ،اس نے اپنے والد سےموضوع اور من گھڑت احادیث بیان کی ہیں اور اہل فن میں سے جو بھی ان احادیث پر غور کرے گا اس سے سامنے یہ واضح ہوجائے گا کہ ان احادیث کے گھڑنے کی ذمہ داری اسی پر ہے[المدخل إلى الصحيح ص: 154]
امام حاکم رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوا کہ یہ ”عبدالرحمن بن زید بن اسلم “ بھی حدیث گھڑنے والا راوی ہے۔
لہٰذا اس حدیث کے موضوع اور من گھڑت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے واضح طور پر اسے موضوع اور من گھڑت کہاہے جیساکہ اوپر حوالہ دیا گیا
واللہ اعلم
٢٣٥- کیا مرغ یا انڈے کی قربانی جائز ہے.؟
✍🏻مجاہدالاسلام عظیم آبادی سوال-مدعیان عمل بالحدیث کا ایک گروہ مرغ کی قربانی کو مشروع اورصحابہ کرام کا معمول بہ قرار دیتا ہے۔اور ان میں سے ...
-
✍🏻مجاہدالاسلام عظیم آبادی آپ سے گزارش ہے كہ درج ذيل نوٹ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے متعلق بيان كردہ اشياء كے متعلق بتائيں كہ يہ كہا...
-
سوال - ان ايام ميں سونے اور چاندى كے برتنوں كا استعمال عام ہو رہا ہے، خاص كر امير طبقہ ميں، بلكہ معاملہ اس حد تك جا پہنچا ہے كہ بعض لوگ تو ...
-
سوال- اگر انسان كے ليے غسل جنابت اورجمعہ كا غسل اكٹھا ہو جائے تو غسل كرتے وقت نيت كے اعتبار سے كيا كيا جائيگا ؟ الحمد للہ: اگر انسان كے ل...