Saturday, September 1, 2018

حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ، حـــدیث وفقہ میں فـــرق

حدیث وفقہ میں فرق

کوئی نامعقول عمل یا بات ایک بار بھی آپ ﷺ کے دہن مبارک سے نہیں نکلی۔ حتی کہ آپ ﷺ خود فرماتے ہیں غصے یا مزاح کی صورت میں بھی میرے منہ سے سوائے حق کے نہیں نکلتا۔اس لئے کہ دین پر عمل صحیح سمجھ اور صحیح گفتگو کا نام ہے جو آپ ﷺ میں بدرجہ اتم موجود تھی۔اس لئے آپ ﷺ کے لئے اس میں فرق کرنا درست نہیں۔مزید خیر القرون میں فقہ کوئی الگ موضوع نہیں تھا بلکہ حدیث وفقہ سے مرا ایک ہی شے تھی۔کیونکہ بے شمار احادیث میں آپ ﷺ کی احادیث کو فقہ کہا گیا ہے۔آپ ﷺ کی ہر بات فقہ پر مبنی ہوتی۔مثلاً:
أَلاَ فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ۔ لوگو!( میرے خطبہ کی احادیث کو) جو موجود ہے وہ غائب تک ضرور پہنچائے ۔ اکثر فقہ کے حامل ، سننے والے سے زیاد ہ ، یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔(متفق علیہ)

آپ ﷺ نے اپنی ہی حدیث کے فہم کو فقہ فرمایا۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
نِعْمَ النِّسَائُ نِسَائُ الأَنْصَارِ لَمْ یَکُنْ یَمْنَعْہُنَّ الْحَیَائُ یَتَفَقَّہْنَ فِی الدِّیْنِ۔ انصاری خواتین کتنے زبردست دینی ذوق رکھتی تھیں دین کا فہم حاصل کرنے میں حیا ان کے مانع نہیں ہوتا تھا۔

٭…وفد عبد القیس کو بھی ایمان، روزہ، زکوٰۃ اور خمس وغیرہ کے احکام بتائے۔ اور شراب کے برتنوں کے استعمال سے ممانعت فرمائی۔اور آخر میں فرمایا:
اِحْفَظُوہُنَّ وَأَخْبِرُوہُنَّ مَنْ وَرَائَکُمْ۔ انہیں یاد رکھو اور اپنی قوم کو بھی جاکر انہیں بتاؤ۔(جملے کی ابتداء میں نص اور اس کا مفہوم یاد کرنے پر آپ ﷺ نے زور دیا ہے جو فقہ ہے)۔

٭… ضمام بن ثعلبہ ؓ جو قبیلہ بنو سعد کے تھے۔ کو بھی آپ ﷺ نے نماز ، روزہ کے احکام بتائے جو اپنی قوم کی طرف سے قاصد بن کر چند سوالات لے آئے تھے۔انہیں سمجھ کرواپس گئے۔

٭…محدثین کرام نے احادیث رسول سے بے شمار فقہی احکام مستنبط کئے اور اپنی تدوین میں فقاہت کو تبویب میں نمایاں کیا۔ مگر کیا اسی فقاہت کو کافی سمجھا گیا؟ بلکہ الفاظ حدیث کی گہرائی ہمہ وقت فقہی استنباط کی مطالب رہی ،اور ہے۔

٭…… حدیث کا دائرہ کارفقہ سے زیادہ وسیع ہے اس میں عمل کے ساتھ عقیدہ، ایمان، شرعی احکام، معجزہ، آثار قیامت، حیات برزخ ، فتنہ قبر، حشر ونشر اور جنت وجہنم کے بارے میں مرویات ہیں جو منزل من اللہ ہیں۔آپ ﷺ نے انہیں قولاً وعملاًبیان کیا اور امت نے اسے بہ سند حاصل کیا۔جب کہ موجودہ فقہ کا تعلق صرف عملی احکام سے ہے۔

٭…صحابہ وتابعین کی اکثریت فقیہ اس لئے کہلائی کہ قرآن وحدیث میں ڈھلی ان کی فکرتھی ۔اس کا مطلب کوئی مخصوص فقہ نہ تھی بلکہ قرآن وحدیث کا صحیح وگہرا فہم انہیں حاصل تھا۔مگر جن فقہاء میں روایت حدیث ہی بہت کم تھی یا ان تک حدیث نہیں پہنچی تھی ۔ انہوں نے اپنی رائے یا قیاس سے استنباط مسائل کیا اور وہ اہل الرائے کہلائے۔

نوٹ: رائے سے مراد فہم وعقل نہیں کیونکہ ہر صاحب علم اس سے مالامال ہوتا ہے اور نہ ہی رائے سے مرادایسا قیاس ہے جس کا اعتماد سنت پر نہ ہوکیونکہ اسے بھی کوئی مسلمان اختیار نہیں کرسکتا۔نیز رائے سے مراد قیاس واستنباط کی قدرت بھی نہیں کیونکہ امام احمد بن حنبل، امام اسحق اور امام شافعیؒ بالاتفاق اہل الرائے سے خارج ہیں حالانکہ وہ قیاس واستنباط پر اچھی طرح قادر تھے بلکہ اہل الرائے سے مراد وہ گروہ ہے جو متفق علیہ مسائل کے بعد کسی متقدم کے اصل کو لے کر تخریج مسائل کی طرف مائل ہوجن کا کام صرف نظیر کو نظیر کی طرف یا اصول میں سے کسی اصل کی طرف لوٹانا ہوتا ہے عموماً احادیث وآثار کا تتبع یہ لوگ نہیں کیاکرتے۔

٭…اسی طرح سند ومتن کی روایت کا نام حدیث ہے ۔ صحیح متن حدیث کا درست اور گہرا فہم ، فقہ کہلاتا ہے۔گویا فقہ کا مصدر قرآن وسنت ہیں یہ کوئی الگ موضوع نہیں۔ بعض اہل علم اسے علم الفروع، شرع یا فقہ کہہ کے محدود معنی دے دیتے ہیں حالانکہ اس میں صرف عملی احکام کا ذکرہوتا ہے۔ عقیدہ وایمان کے احکام اس فقہ میں شامل نہیں ہوتے۔

No comments:

Post a Comment

٢٣٥- کیا مرغ یا انڈے کی قربانی جائز ہے.؟

✍🏻مجاہدالاسلام عظیم آبادی سوال-مدعیان عمل بالحدیث کا ایک گروہ مرغ کی قربانی کو مشروع اورصحابہ کرام کا معمول بہ قرار دیتا ہے۔اور ان میں سے ...