Friday, August 31, 2018

٩٦٧-نماز کے دوران اگر مسوڑھوں سے خون بہہ نکلے تو نمازی کیا کرے؟


س-اگر دورانِ نماز مسوڑھوں سے خون بہہ نکلے تو کیا تھوکنا لازمی ہے؟ اور کیا اس سے وضو ٹوٹ جائے گا؟ کیا دورانِ نماز تھوکا جا سکتا ہے؟ کیا تھوکنےکی اجازت مسجد اور غیرِ مسجد ہر دو صورت میں نماز کے دوران جائز ہے؟ کیا مسوڑھے سے نکلنے والا خون نگلنے پر روزہ ٹوٹ جائے گا؟ کیا اس کپڑے کو دھونا ضروری ہے جس میں خون تھوکا تھا اور اس پر خون کے اثرات بھی نمایاں ہو گئےہوں؟ کیا ٹشو پیپر سے صاف کرنا کافی ہے یا پانی سے کلی ضروری ہے؟ اور اگر زمین پر تھوک دے تو کیا ٹشو سے صاف کرنا کافی ہو گا؟ اگر پانی سے کلی کرنا واجب ہو تو کیا ایک بار کلی کرنا کافی ہے یا تین بار ہی کلی کرنا ہو گی؟

الحمد اللہ:

اول:

مسوڑھے سے نکلنے والے خون کو نگلنا جائز نہیں ہے، چاہے خون نماز کے دوران نکلے یا کسی اور وقت میں۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر منہ سے خون جاری ہو جائے تو اسے نگلنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ)
ترجمہ: تم پر مردار اور خون حرام کر دیا گیا ہے۔ [المائدۃ: 3]" انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (7/ 2) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔

تو اگر نماز میں خون جاری ہو اور اسے جان بوجھ کر اپنے اختیار سے  نگل لے : تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی؛ کیونکہ یہ نماز کے دوران کھانے پینے کے حکم میں ہو گا، لیکن اگر نمازی کے اختیار کے بغیر ہی حلق تک اتر جائے تو پھر اس کی نماز صحیح ہے۔

ایسی صورت میں اگر نماز مسجد میں ادا کر رہا ہے تو پھر ٹشو [وغیرہ ] میں تھوک لے ، مسجد میں مت تھوکے مبادا مسجد میں گندگی نہ پھیلے۔

اور اگر مسجد سے باہر نماز ادا کر رہا ہے تو پھر اپنے بائیں قدم کے نیچے یا اپنی بائیں جانب تھوک سکتا ہے، اس کے متعلق حجاوی رحمہ اللہ "زاد" صفحہ 47 میں کہتے ہیں:
"دوران نماز اپنی بائیں جانب تھوکے، اور اگر مسجد میں ہو تو اپنے کپڑے [رومال  وغیرہ] میں تھوکے" انتہی

موسوعہ فقہیہ  (40/126) میں ہے کہ:
"جمہور فقہائے کرام کا یہ موقف ہے کہ مسجد کی زمین ، دیواروں اور چٹائی پر  بلغم پھینکنا  حرام ہے، بلکہ مسجد کو ہر قسم کی گندگی اور آلائش سے پاک رکھنا واجب ہے، چاہے وہ گندگی نجس نہ بھی ہو، جیسے کہ بلغم وغیرہ" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر انسان مسجد میں ہو تو وہ اپنے رومال یا کپڑے میں تھوک لے، مسجد میں مت تھوکے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: مسجد میں تھوکنا گناہ ہے، لیکن اس گناہ کا کفارہ یہ ہے کہ اس تھوک کو دفن کر دے، اس اعتبار سے ہم کہیں گے کہ: مسجد میں اپنی بائیں جانب مت تھوکیں، البتہ اپنے کپڑے میں تھوک لیں، اسی طرح مسجد میں اپنے قدم کے نیچے مت تھوکیں؛ کیونکہ مسجد میں تھوکنا غلطی ہے؛ کیونکہ اس سے مسجد میں گندگی پھیلتی ہے" انتہی مختصرا
"الشرح الممتع" (3/ 273)

دوم:

اگلی یا پچھلی شرمگاہ کے علاوہ کسی اور جگہ سے نکلنے والے خون کے متعلق فقہائے کرام کا اختلاف ہے کہ اس سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں راجح یہ ہے کہ اس سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس کی وضاحت ہم پہلے فتوی نمبر: (966) کے جواب میں  بیان ہو چکی ہے۔

سوم:

مسوڑھوں سے نکلنے والے خون کو نگلنے سے روزے پر اثر ہوگا یا نہیں تو اس کے بارے میں یہ ہے کہ: اگر روزے دار غیر اختیاری طور پر نگل جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے، اور اگر عمداً اپنے اختیار سے نگلے تو پھر اس کا روزہ فاسد ہو گیا ہے، چنانچہ اگر وہ روزہ رمضان کا تھا یا کوئی اور واجب روزہ تھا تو اسے اس کی قضا دینا ہو گی، اور اگر کوئی نفلی روزہ تھا تو اس کی قضا نہیں ہے۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (965) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

چہارم:

ناک یا منہ سے نکلنے والا خون: اگر معمولی ہو تو یہ قابل معافی ہے، اور اگر زیادہ ہو تو یہ نجس ہے، کپڑے یا جسم پر جہاں بھی لگے اسے دھونا واجب ہے، اور اگر نماز کے دوران نکل  آئے تو اس سے نماز باطل ہو جائے گی اور اگر فرض نماز ہو تو اسے دوبارہ سے پڑھنا ہو گا۔

شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"اگر نمازی کے جسم سے خون جاری ہو جائے تو کیا نماز توڑ دے یا نہیں؟"

اس پر انہوں نے جواب دیا:
"اگر نمازی کے جسم سے نکلنے والا خون اگلی یا پچھلی شرمگاہ سے نکل رہا ہو تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا، اس حالت میں اس پر نماز توڑ کر  خون  دھونا  واجب ہے، دوبارہ سے وضو کرے اور نماز بھی شروع سے ادا کرے۔

اور اگر شرمگاہ  کے علاوہ کہیں اور سے خون  جاری ہوا ہے مثلاً: ناک ، دانت یا زخم وغیرہ سے تو ایسی صورت میں اگر وہ اپنی توجہ منقسم ہوئے بغیر نماز جاری رکھ سکے تو وہ اپنی نماز مکمل کرے؛ کیونکہ راجح موقف یہی ہے کہ خون سے وضو نہیں ٹوٹتا چاہے وہ بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔

تاہم بہت سے اہل علم اگر خون بہت زیادہ ہو تو اسے نجس کہتے ہیں اور اسے قابل معافی نہیں سمجھتے، ایسی صورت میں  اسے نماز توڑ کر جسم پر لگنے والے خون کو  پاک صاف کرنا ہو گا اور پھر وہ واپس آ کر نیا وضو کئے بغیر  نماز پڑھے گا، یہ راجح موقف کے مطابق ہے [کیونکہ خون نکلنے کی وجہ سے اس کا وضو نہیں ٹوٹا] اور نماز دوبارہ سے شروع کرے گا۔

اور اگر معمولی خون ہو تو وہ اپنی نماز جاری رکھے گا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔" انتہی
" نور على الدرب " (7/2) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق

مزید کیلیے آپ فتوی نمبر: (964) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اگر مسوڑھے سے معمولی خون جاری ہو  اور عام طور پر معمولی خون ہی مسوڑھوں سے نکلتا ہے، تو پھر انسان نماز کے دوران اپنے رومال میں خون تھوک لے، اور معمولی خون قابل معافی ہوتا ہے، چنانچہ رومال یا اپنے کپڑے کو دھونے کی ضرورت نہیں ہوتی، البتہ صفائی ستھرائی کے پیش نظر اسے دھونا مستحب ہے، نہ کہ نجاست کی وجہ سے ۔

پنجم:

نجاست کو دھونے کیلیے شریعت میں خاص عدد وارد نہیں ہے ما سوائے  کتے کی نجاست کے، کتے کی نجاست  7 بار  دھوئی جائے گی اور ان میں سے ایک بار مٹی سے دھونا ہوگا۔

جبکہ اس کے علاوہ نجاستیں دھونے کیلیے کسی معین عدد  کو شرط نہیں بنایا گیا، اتنا ضروری ہے کہ  اسے نجاست زائل ہونے تک دھونا لازمی ہے، وہ چاہے ایک بار دھونے سے ہی زائل ہو جائے۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (963) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

٩٦٦-دوران نماز خون نگل لیا


س-نماز ظہر سے قبل میں نے مسواک کی تومجھے دوران نماز محسوس ہوا کہ دانتوں سے کچھ خون رس رہا ہے ، میں نے کوشش تو کی کہ کچھ نہ نگلوں لیکن اس میں کامیاب نہ ہوسکا ، نماز کے بعد میں نے منہ سے تھوکا توواقعتا خون دیکھا ، اب اس کا حکم کیا ہوگا آيا مجھے اس دن کی قضا کرنا ہوگی ؟

الحمد للہ

آپ پرواجب تویہی تھا کہ آپ خون نہ نگلتے بلکہ نماز میں ہی ٹشوپیپر نکاح کراس میں خون تھوک دیتے ، اس لیے کہ آپ نے یہ سب کچھ عمدانہيں کیا آپ کا روزہ صحیح ہے ، لیکن اگرعمدا نگلا ہے توپھر آپ اس دن کے روزے کی قضا کریں ۔
ابن قدامہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :

اگر منہ سے خون بہنے لگے یا پھر پیٹ سے کوئي چيز منہ میں آجائے تواگر اسے نگل لیا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا اگرچہ وہ چیز کم مقدار میں ہی ہو ، کیونکہ منہ کا حکم ظاہر کا ہے اوراصل یہی ہے کہ اس میں پہنچنے والی چيز سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، لیکن تھوک سے نہیں کیونکہ اس سے نہيں بچا جاسکتا ، اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ اصل پر ہی باقی رہے گا ۔

دیکھیں المغنی ابن قدامہ ( 4 / 356 ) ۔

واللہ اعلم

٩٦٥- بدن سے خون نكلنے سے وضوء نہيں ٹوٹتا


س-كيا بدن سے خارج ہونے والے خون سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ؟

الحمد للہ:

بدن سے خارج ہونے والى نجاست كى تين حالتيں ہيں:

پہلى حالت:

پيشاب يا پاخانہ ہو اور عام اور معتاد راستے سے خارج ہو، تو اس سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، اس كے كتاب و سنت اور اجماع ميں دلائل موجود ہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور اگر تم مريض ہو يا مسافر يا تم ميں سے كوئى ايك پاخانہ كر كے آئے يا تم نے اپنى بيويوں كے ساتھ ہم بسترى كى ہو اور تمہيں پانى نہ ملے تو تم پاكيزہ مٹى سے تيمم كرو، اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھ پر مسح كرو ﴾المآئدۃ ( 6 ).

امام ترمذى رحمہ اللہ نے صفوان بن عسال رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ"

" ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم حكم ديا كرتے تھے كہ جب ہم سفر ميں ہوں تو اپنے موزے تين دن اور راتيں نہ اتاريں، مگر جنابت سے، ليكن پاخانہ اور پيشاب اور نيند سے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 96 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

يہاں پاخانہ اور پيشاب اور نيند نواقض وضوء ميں بيان كيے گئے ہيں.

دوسرى حالت:

يہ كہ وہ پيشاب اور پاخانہ ہو ليكن كسى اور راستے سے خارج ہو مثلا اگر كسى كا آپريشن كر كے اس كے پيٹ ميں سوراخ كر ديا جائے اور پاخانہ وہاں سے خارج ہونے لگے، تو يہ بھى نواقض وضوء ميں شامل ہوگا كيونكہ مندرجہ بالا دلائل پيشاب اور پاخانہ كے خارج ہونے سے وضوء ٹوٹنے پر دلالت كرتے ہيں، اور ان دلائل كا عموم اس پر دلالت كرتا ہے كہ پيشاب يا پاخانہ معتاد راستے سے خارج ہو يا كسى اور راستے سے دونوں طرح وضوء توڑ ديگا.

تيسرى حالت:

بدن سے خارج ہونے والى نجاست پيشاب اور پاخانہ كے علاوہ كوئى چيز ہو مثلا خون يا جو علماء قئ كو نجس قرار ديتے ہيں.

اس مسئلہ ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے:

بعض مثلا ابو حنيفہ، امام احمد دونوں نے كچھ اختلاف كيا ہے جس كى تفصيل ہے كہتے ہيں كہ اس سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، انہوں درج ذيل دلائل سے استدلال كيا ہے:

1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے استحاضہ والى عورت كو فرمايا تھا:

" بلكہ يہ تو رگ كا خون ہے، اس ليے تم ہر نماز كے ليے وضوء كرو "

ان كا كہنا ہے كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وضوء كے وجوب كى علت يہ بيان كى كہ يہ رگ كا خون ہے، اور ہر خون اسى طرح كا ہے.

2 - امام ترمذى نے معدان بن ابى طلحہ سے بيان كيا ہے وہ ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قئ كى اور روزہ افطار كيا اور وضوء كيا "

تو ميں ثوبان رحمہ اللہ كو دمشق كى مسجد ملا اور ان سے يہ حديث بيان كى تو وہ كہنے لگے:

ميں نے ان كے وضوء كرنے كے ليے پانى ڈالا تھا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 87 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اكثر علماء كرام كا كہنا ہے كہ بدن سے نجاست خارج ہونا ناقض وضوء نہيں، اور دليل يہ ديتے ہيں كہ اصل ميں وضوء نہيں ٹوٹا، اور اس سے وضوء ٹوٹنے كى كوئى صحيح دليل نہيں ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اس مسئلہ ميں ميرا بہتر اوراچھا اعتقاد يہى ہے كہ اصل ميں وضوء نہيں ٹوٹا حتى كہ شريعت مطہرہ سے وضوء ٹوٹنا ثابت ہو جائے، اور يہ ثابت نہيں " انتہى.

اس سے وضوء ٹوٹنے والوں كے دلائل كا درج ذيل جواب ديتے ہيں:

استحاضہ والى حديث كا جواب يہ ديا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے حيض كے خون كى نفى چاہى ہے، يعنى يہ حيض كا خون نہيں، بلكہ يہ رگ كا خون ہے، اور اگر ايسا ہى ہے تو پھر تم نماز نہ چھوڑو بلكہ نماز ادا كرو، ليكن ہر نماز كے ليے نيا وضوء كرنا ہوگا.

امام نووى رحمہ اللہ " المجموع " ميں رقمطراز ہيں:

" اگر ـ يعنى استحاضہ والى حديث ـ صحيح ہو تو اس كا معنى يہ ہے كہ اسے يہ معلوم كرانا تھا كہ يہ حيض كا خون نہيں، بلكہ وضوء ٹوٹنے والى جگہ سے خارج ہونے سے وضوء كا موجب ہے، اور اس سے يہ مراد نہيں كہ خون ـ جہاں سے بھى خارج ہو ـ خارج ہونے سے وضوء واجب ہو جاتا ہے " انتہى.

اور ثوبان كى حديث كے كئى ايك جواب ديے گئے ہيں:

1 - يہ حديث ضعيف ہے، امام نووى رحمہ اللہ " المجموع ميں كہتے ہيں: ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث سے ان كے استدلال كا جواب كئى ايك وجوہ سے ہے: جن ميں سب سے بہتر اور اچھى يہ ہے كہ وہ حديث ضعيف اور مضطرب ہے، بيھقى وغيرہ دوسرے حفاظ كا يہى كہنا ہے " انتہى.

2 - يہ كہ ـ اسے صحيح تسليم كرنے اور اس كے ثابت ہونے كى صورت ميں ـ يہ حديث قئ خارج ہونے سے وضوء ٹوٹنے پر دلالت نہيں كرتى، كيونكہ صرف يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فعل ہے، جو كہ قئ سے وضوء كرنے كے استحباب پر دلالت كرتا ہے، نہ كہ وجوب پر.

اس حديث سے استدلال كى بنياد يہ ہے كہ قئ نجس ہے، راجح يہى ہے كہ يہ طاہر ہے اور اس كى نجاست كى كوئى دليل نہيں.

مزيد تفصيل كے ليے آپ المجموع للنووى ( 2 / 63 - 65 ) اور المغنى ابن قدامہ ( 1 / 247 - 250 ) اور الشرح الممتع ابن عثيمين ( 1 / 185 - 189 ) كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم

٩٦٤-ایک شخص کے نماز کے دوران اپنے کپڑوں پر خون کا قطرہ دیکھا تو کیا نماز توڑ دے؟


سوال: میں نماز پڑھ رہا تھا اور اسی دوران مجھے خون کا چھوٹا سا قطرہ کپڑوں پر نظر آیا تاہم میں نے اپنی نماز جاری رکھی، تو میری نماز کا کیا حکم ہے؟

الحمد للہ:

اول:

خون اکثر علمائے کرام کے ہاں نجس ہے، اس بارے میں مزید تفصیلات کیلیے سوال نمبر: (963) کا مطالعہ کریں۔

دوم:

اگر کوئی شخص نماز ادا کرتے ہوئے معمولی سی جگہ پر خون لگا ہوا دیکھے تو وہ اپنی نماز مکمل کرے گا، اسے کپڑوں کو صاف کرنے کیلیے نماز توڑنے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ معمولی نجاست قابل معافی ہوتی ہے اسے دھونا لازمی نہیں ہے۔

چنانچہ  "المغنی" (1/409) میں ہے کہ:
"اگر نمازی نماز پڑھ لے اور اس کے کپڑوں پر نجاست لگی ہو چاہے تھوڑی ہی کیوں نہ ہو تو وہ نماز دہرائے گا۔۔۔ البتہ اگر معمولی مقدار میں خون یا پیپ ہو جسے دیکھ کر دل خراب نہ ہو تو پھر نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔"

اکثر علمائے کرام کی رائے کے مطابق  معمولی خون یا پیپ قابل معافی  ہے۔۔۔؛ کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق آپ کہتی ہیں کہ: "ہمارے پاس صرف ایک ہی قمیص ہوتی تھی اسی میں ماہواری کے ایام گزرتے اور اسی میں جنابت  ہوتی تھی، پھر جب کبھی اسے کپڑوں میں خون کا دھبہ نظر آتا تو اسے لعاب لگا کر کھرچ دیتی تھی" ایک اور روایت میں ہے کہ: "ہمارے پاس صرف ایک ہی قمیص ہوتی تھی اور اسی میں عورت ماہواری کے دن گزارتی ، اگر اس دوران حیض کا خون کپڑوں پر لگ جاتا تو اسے اپنے تھوک سے تر کر کے ناخن سے کھرچ دیتی تھی" ابو داود نے اسے روایت کیا ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معمولی خون لگا ہو تو یہ قابل معافی ہے؛ کیونکہ تھوک سے کسی چیز کو پاک نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس طرح تو ناخن بھی نجس ہو جاتا ہے، پھر ان کا انداز بیان ایسا ہے جو ان کے دائمی عمل کو بیان کرتا ہے اور ایسا عمل نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مخفی نہیں رہ سکتا اور نہ ہی آپ کی اجازت کے بغیر  ہو سکتا ہے" انتہی

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"معمولی خون  اور اسے پیدا ہونے والے کچ لہو یا پیپ وغیرہ قابل معافی  ہیں، اور معمولی سے مراد یہ ہے کہ جسے دیکھ کر دل میں کراہت پیدا نہ ہو" انتہی
" شرح العمدة "(1/103)

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"اگر معمولی سی نجاست  جس کا حجم باجرے کے دانے کے برابر ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟"
انہوں نے جواب دیا:
"خون، پیپ، اور کچ لہو کے علاوہ کسی بھی نجاست  چاہے وہ تھوڑی ہو یا زیادہ قابل معافی نہیں ہے، البتہ خون، کچ لہو اور پیپ  معمولی ہو تو قابل معافی ہے، بشرطیکہ کہ یہ شرمگاہ سے خارج نہ ہو؛ کیونکہ معمولی  خون، کچ لہو اور پیپ سے بچنا مشکل اور قابل مشقت  ہے، جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ}
ترجمہ: اور اللہ نے تم پر دینی امور میں کوئی مشقت نہیں ڈالی۔[الحج: 78]

اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا:
{يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ}
ترجمہ: اللہ تعالی تمہارے بارے میں آسانی چاہتا ہے وہ تمہارے بارے میں تنگی نہیں چاہتا۔ [البقرة: 185]" انتہی

شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز .. شیخ عبد الرزاق عفیفی .. شیخ عبد اللہ بن غدیان .. شیخ عبد اللہ بن قعود۔

واللہ اعلم

٩٦٣-أدلة نجاسة الدم والإجماع عليه


يقول الشوكاني : النجاسات تحتوي على : 1. غائط وبول البشر ما عدا بول الصغير الذكر . 2. لعاب الكلب . 3. الروث والغائط . 4. دم الحيض . 5. لحم الخنزير . وغير هذه فهو غير نجس ، حتى وإن كان قذرا في نظر الإنسان ؛ لأنه لا دليل على تحريمها من القرآن والحديث ما عدا أكلها . وسؤالي هو : ما هي الأدلة على نجاسة دم الإنسان والحيوان وميتة الحيوان ؟ وما هو القول الصحيح في هذا الشأن ، بما أن كل الآراء يصرح أصحابها أنها مستنبطة من القرآن والحديث ؟ وأيها أتبع ؟

الحمد لله

الدم السائل نجس باتفاق العلماء ، دل على ذلك أدلة صريحة في الكتاب والسنة ، منها قوله سبحانه وتعالى : ( قُل لاَّ أَجِدُ فِيمَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَماً مَّسْفُوحاً أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقاً أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ) الأنعام/145 .
قال الإمام الطبري رحمه الله :
" الرجس : النجس والنتن " انتهى "جامع البيان" (8/53) .
وأما الدليل من السنة الصحيحة : فعن أسماء بنت أبي بكر رضي الله عنها قالت : ( جَاءَت امرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ فَقَالَت : إِحدَانَا يُصِيبُ ثَوبَهَا مِن دَمِ الحَيضَةِ كَيفَ تَصنَعُ بِهِ ؟ قَالَ : تَحُتُّهُ ثُمَّ تَقرُصُهُ بِالمَاءِ ثُمَّ تَنضَحُهُ ثُمَّ تُصَلِّي فِيهِ ) رواه البخاري (227) ومسلم (291) .
وقد بوب عليه البخاري ( باب غسل الدم ) ، كما بوب عليه النووي ( باب نجاسة الدم وكيفية غسله ) ، والحديث وإن جاء في دم الحيض ، إلا أنه لا فرق بين دم وآخر ، فالدم كله جنس واحد ، من أي محل خرج .
وهذا الحكم لا اختلاف فيه بين العلماء من الصحابة والتابعين والأئمة الأربعة .
سئل الإمام أحمد عن الدم وقيل له : الدم والقيح عندك سواء ؟
فقال : الدم لم يختلف الناس فيه ، والقيح قد اختلف الناس فيه " انتهى "شرح عمدة الفقه" لابن تيمية (1/105) .
ويقول الإمام النووي رحمه الله :
" الدلائل على نجاسة الدم متظاهرة ، ولا أعلم فيه خلافا عن أحد من المسلمين ، إلا ما حكاه صاحب الحاوي عن بعض المتكلمين أنه قال : هو طاهر ، ولكن المتكلمين لا يعتد بهم في الإجماع والخلاف على المذهب الصحيح الذي عليه جمهور أهل الأصول من أصحابنا وغيرهم لا سيما في المسائل الفقهيات " انتهى "المجموع" (2/576) .
وقد نقل إجماع العلماء على نجاسة الدم كله جماعة كبيرة من أهل العلم ، سبق ذكر الإمام أحمد ، والنووي ، ومنهم ابن حزم في "مراتب الإجماع" (ص/19) ، وابن عبد البر في "التمهيد" (22/230) ، والقرطبي في "الجامع لأحكام القرآن" (2/210) ، وابن رشد في "بداية المجتهد" (1/79) ، وابن حجر في "فتح الباري" (1/352) وغيرهم .
فالأَوْلى - في مقتضى الشرع والعقل - اتباع هذا القول الذي تواتر العلماء على نقله وتقريره ، فهو قول مبني على النص الصريح للكتاب والسنة ، وتقرير الشوكاني ومن تبعه في طهارة الدم قول مرجوح مخالف للدليل والإجماع ، فلا ينبغي جعله مثارا للحيرة والاضطراب ، كما لا يجوز الظن بأن العلماء يجمعون في مسألة ولا يكون لهم فيه دليل صحيح صريح ، كما يظن بعض طلبة العلم في مسألة نجاسة الدم وغيرها من المسائل .

والله أعلم

Wednesday, August 29, 2018

٩٦٢-جدید مسلمان کے ختنے کرنا اورنام رکھنا


س-میرا تعلق ڈنمارک سے ہے اورمیں نوجوان ہوں کچھ مدت سے دین اسلام کا اہتمام کررہا ہوں اب اس مرحلہ تک پہنچ چکا ہوں کہ اب مجھے یقینا مسلمان ہوجانا چاہيۓ اس سلسلہ میں میرے کچھ سوالات ہیں :
کیا مجھ پرمسلمان ہونے کے لیے ختنہ کرانا واجب ہے ( میں ختنہ خوشی سے کرا‎ؤں گا ) اورختنہ کس طرح ہوگا کیا وہ ڈاکٹر کرے گا یا کہ امام یا میں خود ہی کرسکتا ہوں ؟ ۔
میں محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہونے کے بعدنام بدلنا بہت بڑی خوشی کا باعث ہوگا لیکن ميں یہ پسندکرتا ہوں کہ مندرجہ ذیل ناموں میں سے ایک مناسب نام کا علم ہوجاۓ جواسلام قبول کرنے کےبعدمیری پہچان بن سکے : قاسم ، عاصم ، تیم اللہ ، سعید ، آپ کے جواب پرمجھے بہت خوشی ہوگی ؟

الحمد للہ
اس اللہ تبارک وتعالی کی حمدوثنا ہے جس نے آپ کواس کی ھدایت دی اگراللہ تعالی آپ کوھدایت نہ دیتا توآپ ھدایت پرنہیں آسکتے تھے ، آج رات ہميں اس خبرنے بہت ہی خوشی دی ہے کہ آپ ہمارے دین میں شامل ہونا چاہتے ہيں ہم اللہ تعالی سے دعاکرتے ہیں کہ وہ آپ کوحق کی توفیق سے نوازے اور دین اسلام پر ثابت قدم رکھے ۔
آپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر ختنےکرانے سے آپ کوکسی نقصان کا خدشہ نہیں توآپ کسی ماہراورتجربہ کارجراحی کرنے والے ڈاکٹر سے ختنہ کروالیں ، اوراگر آپ کوختنہ کرانا سے کوئ نقصان ہونے کا اندیشہ ہے تو پھر آپ رہنے دیں اوراس سے ان شاءاللہ آپ کے اسلام کوکو‏ئ ضرر نہیں ہوگا ۔

اورنام بدلنے کے متعلق ہم آپ سے گزارش کریں گے کہ اللہ تعالی کے ہاں سب سےمحبوب اورپسندیدہ نام عبداللہ اورعبدالرحمن ہے اوراس کا ثبوت صحیح مسلم حدیث نمبر ( 3975 ) میں پایا جاتا ہے ۔

اوراگرآپ صرف ان ناموں میں سے اپنا نام رکھنا چاہتے ہيں جوآپ نے سوال میں ذکر کیا ہے توہم یہ کہیں گے کہ آپ اپنا نام عاصم رکھیں جس کا معنی حفاظت کرنے والا ، بچانے والا ، ہے ۔

ہم اللہ تعالی سے آپ کے لیے عظیم دین اسلام کے تحت رہتے ہوۓاچھی اورسعادت مندی کی زندگی کا سوال کرتے ہیں ۔

واللہ اعلم

٩٦١-عورت اگر اسى برس كى ہو تو كيا خادمہ اس كے زيرناف بال صاف كر سكتى ہے ؟


س-ايك بوڑھى عورت جس كى تقريبا اسى برس عمر ہے وہ جسمانى طور پر كمزور ہے اورنظر بھى كمزور وہ اپنى ملازمہ كے ساتھ رہتى ہے اس كا خاوند فوت ہو چكا ہے تو كيا ملازمہ اس كے زيرناف بال صاف كر سكتى ہے ؟

الحمد للہ:

جى ہاں ملازمہ كے ليے اس كے زيرناف بال صاف كرنے جائز ہيں كيونكہ اس كى ضرورت ہے، فقھاء كرام نے اس كى صراحت بيان كى ہے.

الانصاف ميں مرداوى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

جو كوئى بھى كسى مريض يا مريضہ كا وضوء يا استنجاء وغيرہ كرانے كى خدمت ميں مبتلا ہو تو اس كا حكم ڈاكٹر كى ديكھنے اور چھونے كى طرح ہى ہے، امام احمد نے اس كى صراحت كى ہے، اور اسى طرح اگر كوئى شخص زيرناف بال اچھى طرح صاف نہ كر سكے تو كوئى اور اس كے زيرناف بال صاف كر دے، اس كى بھى صراحت كى ہے، اور ابو الوفاء اور ابو يعلى الصغير نے بھى يہى كہا ہے. انتہى.

ديكھيں: الانصاف ( 8 / 22 ).

اور " كشاف القناع " ميں ہے:

" اور ڈاكٹر ضرورت كى بنا پر ديكھ اور چھو سكتا ہے، حتى كہ شرمگاہ اور اندر كا حصہ بھى، كيونكہ يہ ضرورت ہے... ليكن يہ محرم يا خاوند كى موجودگى ميں ہو، كيونكہ خلوت كى صورت ميں ممنوعہ اشياء كا وقوع ہونا ممكن ہے، اور ضرورت كے علاوہ باقى جسم كا حصہ چھپا كر ركھا جائيگا، كيونكہ اصل ميں وہ اپنى حرمت پر باقى ہے.

اور جو شخص كسى مريض يا مريضہ كا وضوء يا استنجاء كرانے كى خدمت پر مامور ہو وہ بھى اس كى ـ يعنى ڈاكٹر ـ طرح ہى ہے، اور كسى كو غرق ہونے يا آگ سے بچانے والے كى طرح ہى ہے، اور اسى طرح اگر كوئى شخص اپنے زيرناف بال اچھى طرح صاف نہ كرسكے تو دوسرا صاف كر دے. انتہى. مختصرا

ديكھيں: كشاف القناع ( 5 / 13 ).

اور كسى مرد ڈاكٹر كا كسى مريض عورت كا علاج كرنے كے كچھ قواعد و ضوابط ہيں: جن ميں ليڈى ڈاكٹر كا نہ ہونا بھى شامل ہے، چاہے وہ ليڈى ڈاكٹر كافرہ ہى ہو.

واللہ اعلم

٢٣٥- کیا مرغ یا انڈے کی قربانی جائز ہے.؟

✍🏻مجاہدالاسلام عظیم آبادی سوال-مدعیان عمل بالحدیث کا ایک گروہ مرغ کی قربانی کو مشروع اورصحابہ کرام کا معمول بہ قرار دیتا ہے۔اور ان میں سے ...