Monday, October 29, 2018

1027:نبی ﷺ نور تھے یا بشر.؟


سوال: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے یا بشر؟ اور کیا یہ درست ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا، چاہے آپ روشنی ہی میں کیوں نہ ہوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ:

ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدِ اولاد آدم ہیں، آپ آدم علیہ السلام کی نسل میں سے بشر ہیں، اور ماں باپ سے پیدا ہوئے، آپ کھاتے پیتے بھی تھے، اور آپ نے شادیاں بھی کیں، آپ بھوکے بھی رہے، اور بیمار بھی ہوئے، آپکو بھی خوشی و غمی کا احساس ہوتا تھا، اور آپکے بشر ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ آپکو بھی اللہ تعالی نے اسی طرح وفات دی جیسے وہ دیگر لوگوں کو موت دی، لیکن جس چیز سے آپ کو امتیاز حاصل ہے وہ نبوت، رسالت، اور وحی ہے۔

جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ )

ترجمہ:آپ کہہ دیں: میں یقینا تمہارے جیسا ہی بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہےکہ بیشک تمہارا الہ ایک ہی ہے۔ الكهف/110

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشری حالت بالکل ایسے ہی تھی جیسے دیگر انبیاء اور رسولوں کی تھی۔

ایک مقام پر اللہ تعالی نے [انبیاء کی بشریت کے متعلق ] فرمایا:

( وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ )

ترجمہ:اور ہم نے ان[انبیاء] کو ایسی جان نہیں بنایا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں، اور نہ ہی انہیں ہمیشہ رہنے والا بنایا۔ الأنبياء/8

جبکہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت پر تعجب کرنے والوں کی تردید بھی کی اور فرمایا:

( وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الأَسْوَاقِ )

ترجمہ:[ان کفار نے رسول کی تردید کیلئے کہاکہ ] یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے، اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے۔ الفرقان/7

چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور بشریت کے بارے میں جو قرآن نے کہہ دیا ہے اس سے تجاوز کرنا درست نہیں ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کہنا، یا آپکے بارے میں عدم سایہ کا دعوی کرنا ، یا یہ کہنا کہ آپکو نور سے پیدا کیا گیا ، یہ سب کچھ اس غلو میں شامل ہے جس کے بارے میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: (مجھے ایسے بڑھا چڑھا کر بیان نہ کرو جیسے عیسی بن مریم کو نصاری نے بڑھایا، بلکہ [میرے بارے میں]کہو: اللہ کا بندہ اور اسکا رسول) بخاری (6830)

اور یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ صرف فرشتے نور سے پیدا ہوئے ہیں، آدم علیہ السلام کی نسل میں سے کوئی بھی نور سے پیدا نہیں ہوا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، اور ابلیس کو دہکتی ہو آگ سے، اور آدم علیہ السلام کو اس چیز سے پیدا کیا گیا جو تمہیں بتلادی گئی ہے) مسلم (2996)

شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ (458)میں کہا:

"اس حدیث میں لوگوں کی زبان زد عام ایک حدیث کا رد ہے، وہ ہے: (اے جابر! سب سے پہلے جس چیز کو اللہ تعالی نے پیدا کیا وہ تیرے نبی کا نور ہے)!اور اسکے علاوہ ان تمام احادیث کا بھی رد ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور سے پیدا ہوئے، کیونکہ اس حدیث میں واضح صراحت موجود ہے کہ جنہیں نور سے پیدا کیا گیا ہے وہ صرف فرشتے ہیں، آدم اور آدم کی نسل اس میں شامل نہیں ہیں، اس لئے خبردار رہو، غافل نہ بنو" انتہی۔

دائمی فتوی کمیٹی سے مندرجہ ذیل سوال پوچھا گیا:

"ہمارے ہاں پاکستان میں بریلوی فرقہ کے علماء کا نظریہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا، اور اس سے آپکے بشر نہ ہونی کی دلیل ملتی ہے، تو کیا یہ بات درست ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا؟

تو انہوں نے جواب دیا:

یہ باطل قول ہے، جو کہ قرآن وسنت کی صریح نصوص کے خلاف ہے، جن میں صراحت کے ساتھ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے، اور بشر ہونے کے ناطے آپ لوگوں سے کسی بھی انداز میں مختلف نہیں تھے، اور آپکا سایہ بھی تھا جیسے ہر انسان کا ہوتا ہے، اور اللہ تعالی نے آپ کو رسالت دے کر جو کرم نوازی فرمائی اسکی بنا پر آپ کی والدین ذریعے پیدائش اور بشریت سے باہر نہیں ہوجاتے، اسی لئے تو اللہ تعالی نے فرمایا: ( قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحَى إِلَيَّ ) کہہ دیں : کہ میں تو تمہارے جیسا ہی بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام پر رسولوں کا قول قرآن مجید میں ذکر کیا: ( قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَحْنُ إِلاْ بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ) انہیں رسولوں نے کہابھی: ہم تو تمہارے جیسے ہی بشر ہیں۔

جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کی جانے والی روایت کہ آپکو اللہ کے نور سے پیدا کیا گیا، یہ حدیث موضوع ہے"

اقتباس از: "فتاوى اللجنة الدائمة" (1/464)

Thursday, October 25, 2018

1025- کیا حضرت آدم علیہ السلام نے نبی کریم ﷺ کا وسیلہ مانگا تھا؟

بعض علماء کرام کو یہ کہتے ہوئے سنا ہیکہ جب حضرت آدم علیہ السلام سے غلطی ہوئی اور وہ زمین پر بھیج دیے گئے تب انہوں نے بہت دعائیں کی لیکن ان کی کوئی دعا قبول نہیں ہوئی، لیکن جب نبی کریم ﷺ کا واسطہ انہوں نے دیا تو ان کی دعا قبول ہوگئی، کیا یہ بات درست ہے.؟

الحمدللہ

امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
حدثنا أبو سعيد عمرو بن محمد بن منصور العدل، ثنا أبو الحسن محمد بن إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، ثنا أبو الحارث عبد الله بن مسلم الفهري، ثنا إسماعيل بن مسلمة، أنبأ عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، عن أبيه، عن جده، عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لما اقترف آدم الخطيئة قال: يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي، فقال الله: يا آدم، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه؟ قال: يا رب، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك، فقال الله: صدقت يا آدم، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك[المستدرك على الصحيحين للحاكم 2/ 672]

حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے جب وہ لغزش ہوگئی (جس کی وجہ سے جنت سے دُنیا میں بھیج دئیے گئے تو ہر وقت روتے تھے اور دعا و استغفار کرتے رہتے تھے) ایک مرتبہ آسمان کی طرف منہ کيا اور عرض کیایا اللہ محمد (ﷺ) کے وسیلہ سے تجھ سے مغرفت چاہتا ہوں وحی نازل ہوئی کہ محمدﷺ کون ہیں؟ (جن کے واسطے سے تم نے استغفارکی) عرض کیا کہ جب آپ نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا تها لاَ اِله اِلاً اﷲ مُحَمًدُ رَسُولُ اﷲ تو میں سمجھ گیا تھا کہ محمدﷺ سے اونچی ہستی کوئی نہیں ہے جس کا نام آپ نے اپنے نام کے ساتھ رکھا، وحی نازل ہوئی کہ وہ خاتم النبیینﷺ ہیں تماری اولاد میں سے ہیں اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کیے جاتے

یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے تفصیل ملاحظہ ہو:

امام ذہبی رحمہ اللہ مستدرک کی تلخیص میں اس روایت کے بارے میں کہا:
بل موضوع
بلکہ یہ روایت موضوع اورمن گھڑت ہے[المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 2/ 672]

اس کی سند میں”عبد الله بن مسلم الفهري“ موجود ہے ۔
اوریہ کذاب اور بہت بڑا جھوٹاشخص ہے۔

امام ذہبی رحمہ اللہ نے میزان میں عبداللہ بن مسلم الفہری کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی اس روایت کوجھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا:
عبد الله بن مسلم ، أبو الحارث الفهري.روى عن إسماعيل بن مسلمة ابن قعنب، عن عبد الرحمن بن يزيد بن سلم خبرا باطلا فيه: يا آدم لولا محمد ما خلقتك.رواه البيهقى في دلائل النبوة.
عبداللہ بن مسلم ،ابوالحارث الفہری،اس نے اسماعیل بن مسلمہ ابن قعنب ،عن عبدالرحمن بن یزید بن اسلم سے ایک جھوٹی روایت بیان کی ہے جس میں ہے کہ اے ادم اگر محمدنہ ہوتے تو میں تمہیں پیدانہ کرتا ،اسے بیہقی نے دلائل النبوہ میں روایت کیا ہے[ميزان الاعتدال للذهبي: 2/ 504]

حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی یہ بات لسان المیزان میں نقل کی ہے اور کوئی تعاقب نہیں کیا ہے دیکھئے:[لسان الميزان لابن حجر: 3/ 359]

اس کی سند میں ایک اور راوی ”عبد الرحمن بن زيد بن أسلم“ ہے ۔
اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے چنانچہ:

ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، وقد أجمعوا على ضعفه
عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔[إخبار أهل الرسوخ في الفقه والتحديث بمقدار المنسوخ من الحديث ص: 49]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے:
قلت: عبد الرحمن متفق على تضعيفه.
میں (ابن حجر) کہتاہوں کہ عبدالرحمن بن زید کے ضعیف ہونے پراتفاق واجماع ہے[إتحاف المهرة لابن حجر: 12/ 98]

بے چارے دیوبندی حضرات گلی گلی چلاتے ہیں کہ اہل حدیث اجماع نہیں مانتے اور یہاں جس راوی کے ضعیف ہونے پر اجماع ہےاس کی روایت سے بھی استدلال کرتے نہیں شرماتے ۔اور اس اجماع کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔

یہ راوی بالاجماع ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ جھوٹی اور من گھرٹ احادیث بھی روایت کرتا تھا چنانچہ:

امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه
عبدالرحمن بن زید بن اسلم ،اس نے اپنے والد سےموضوع اور من گھڑت احادیث بیان کی ہیں اور اہل فن میں سے جو بھی ان احادیث پر غور کرے گا اس سے سامنے یہ واضح ہوجائے گا کہ ان احادیث کے گھڑنے کی ذمہ داری اسی پر ہے[المدخل إلى الصحيح ص: 154]

امام حاکم رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوا کہ یہ ”عبدالرحمن بن زید بن اسلم “ بھی حدیث گھڑنے والا راوی ہے۔

لہٰذا اس حدیث کے موضوع اور من گھڑت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے واضح طور پر اسے موضوع اور من گھڑت کہاہے جیساکہ اوپر حوالہ دیا گیا

واللہ اعلم

1024-درود شریف کے فضائل، مواقع اور احکامات

س- علماء کرام اپنی تقاریر میں یہ بیان فرماتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ کا نام لیا جائے تب ہمیں ﷺ کہنا چاہیے، اور کسی حدیث کا ذکر کرتے ہیں جس میں اللہ کے نبی نے فرمایا کے دنیا کا سب سے بخیل شخص وہ ہے جس نے میرا نام سنا اور مجھ پر درود نہیں بھیجا، کیا اس طرح کی کوئی حدیث وارد ہے.؟ اور یہ بھی بتائیں کہ اگر ایک تقریر میں دس مرتبہ ﷺ کہا جائے تو کیا دس مرتبہ درود بھیجنا لازم ہے یا ایک دو مرتبہ کافی ہے.؟

الحمدللہ

اول
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا ایک مقبول ترین عمل ہے۔ یہ سنت الٰہیہ ہے، اس نسبت سے یہ جہاں شان مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے مثل ہونے کی دلیل ہے، وہاں اس عمل خاص کی فضیلت بھی حسین پیرائے میں اجاگر ہوتی ہے کہ یہ وہ مقدس عمل ہے جو ہمیشہ کے لیے لازوال، لافانی اور تغیر کے اثرات سے محفوظ ہے کیونکہ نہ خدا کی ذات کے لیے فنا ہے نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کی انتہا۔ اللہ تعالٰیٰ نہ صرف خود اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہے بلکہ اس نے فرشتوں اور اہل ایمان کو بھی پابند فرما دیا ہے کہ سب میرے محبوب پر درود و سلام بھیجیں۔ اس لیے قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ،القرآن، الاحزاب، 33 : 56
ترجمہ: بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبی (مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں،
اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو.

اسی طرح درود و سلام کے فضائل اور دینی و دنیوی مقاصد کے حصول میں اس کی برکات مستند احادیث سے ثابت ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا آیا اور عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی مجھ پر ایک بار درود شریف پڑھے اللہ تعالٰیٰ اس کے بدلے اس امتی پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے دس درجے بلند کرتا ہے اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دیتا ہے اور اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے۔[ (نسائی، السنن الکبریٰ، 6 : 21، رقم : 9892)]“
ایک اور مقام پر ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں:

”میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم میں آپ پر کثرت سے درود شریف پڑھتا ہوں۔ میں کس قدر درود شریف پڑھا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا چاہو اگر زیادہ کرو تو بہتر ہے میں نے عرض کیا ’’نصف‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا چاہو البتہ زیادہ کرو تو بہتر ہے میں نے عرض کیا دو تہائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا زیادہ کرو تو بہتر ہے میں نے عرض کیا۔ میں سارے کا سارا وظیفہ آپ کے لیے کیوں نہ کرو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب تیرے غموں کی کفایت ہوگی اور گناہ بخش دیئے جائیں گے۔[ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الزهد، باب ماجاء فی صفة أوانی الحوض، 4 : 245، رقم : 2457]“

1- ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا)
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘ [ مسلم : ۴۰۸]
2- ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ ، وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ ، وَرَفَعَ عَشْرَ دَرَجَاتٍ) [ صحیح الجامع : ۶۳۵۹ ]
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔‘‘
3- درود شریف کثرت سے پڑھا جائے تو پریشانیوں سے نجات ملتی ہے ۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :
’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ پر زیادہ درود پڑھتا ہوں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے کہ میں آپ پر کتنا درود پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ جتنا چاہو۔ میں نے کہا : چوتھا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چاہواور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : آدھا حصہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : دو تہائی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَجتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔میں نے کہا : میں آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :إِذًا تُکْفٰی ہَمَّکَ ، وَیُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُکَ تب تمھیں تمھاری پریشانی سے بچا لیا جائے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ایک روایت ہے میں ہے :إِذَنْ یَکْفِیْکَ اﷲُ ہَمَّ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِتب تمھیں اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت کی پریشانیوں سے بچا لے گا۔‘‘ [ ترمذی : ۲۴۵۷ ، وصححہ الالبانی ]
روزِ قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب وہی ہو گا جو سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا تھا ۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أَوْلَی النَّاسِ بِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَکْثَرُہُمْ عَلَیَّ صَلاَۃً)
’’ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجے گا۔‘‘
[رواہ الترمذی وابن حبان وابو یعلی وغیرہم]

وہ مواقع جہاں درود شریف ضرور پڑھنا چاہیے​

ویسے تو درود شریف کسی وقت یا موقع کی قید کے بغیر کثرت کے ساتھ پڑھنا چاہیے، تاہم بعض مواقع ایسے ہیں جہاں اس کے پڑھنے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ ان میں سے کچھ تو مشہور ہیں ۔ مثلاً ہر نماز کے آخری تشہد میں، قنوتِ وتر کے آخر میں، نماز جنازہ کی دوسری تکبیر کے بعد اور خطبہ جمعہ وغیرہ میں۔ ان کے علاوہ مزید کچھ مواقع یہ ہیں :

1 دعا سے پہلے
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا ، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اس نے جلد بازی کی ہے ۔ پھر آپ نے اسے بلایا اور فرمایا : إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ فَلْیَبْدَأْ بِتَحْمِیْدِ اﷲِ وَالثَّنَائِ عَلَیْہِ ، ثُمَّ یُصَلِّیْ عَلَی النَّبِیِّ ، ثُمَّ لْیَدْعُ بِمَا شَائَ تم میں سے کوئی شخص جب نماز پڑھ لے تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف وثنا بیان کرے ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے ، اس کے بعد جو چاہے اللہ سے مانگے۔‘‘
[ ابو داؤد : ۱۴۸۱ ، ترمذی : ۳۴۷۷ ۔ وصححہ الالبانی ]
اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :
إِنَّ الدُّعَائَ مَوْقُوْفٌ بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأرْضِ لَا یَصْعَدُ مِنْہُ شَیْئٌ حَتّٰی تُصَلِّیَ عَلٰی نَبِیِّکَ ﷺ [ ترمذی : ۴۸۶۔ وحسنہ الالبانی ]
’’بے شک دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی رہتی ہے اور کوئی دعا اوپر نہیں جاتی یہاں تک کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں۔‘‘

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جائے تو ذکرکرنے اور سننے والے دونوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا چاہیے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ)
’’اس آدمی کی ناک خاک میں ملے جس کے پاس میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا۔‘ [ترمذی : ۳۵۴۵۔ وصححہ الالبانی ]
نیز ارشاد فرمایا :
(اَلْبَخِیْلُ الَّذِیْ مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ)
’’ بخیل وہ ہے جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘
[ ترمذی : ۳۵۴۶۔ وصححہ الابانی ]

2-اذان کے بعد
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
(إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا یَقُوْلُ ، ثُمَّ صَلُّوْا عَلَیَّ فَإِنَّہُ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ صَلاَۃً صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہٖ عَشْرًا)
’’جب تم مؤذن کو سنو تو تم بھی اسی طرح کہو جیسے وہ کہے ، پھر مجھ پر درود بھیجو ، کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں بھیجتا ہے ( یا دس مرتبہ اس کی تعریف کرتا ہے)۔‘‘ [مسلم: ۳۸۴]

3- مسجد میں داخل ہوتے اور اس سے نکلتے ہوئے
مسجد میں داخل ہوتے اور اس سے نکلتے ہوئے پہلے درود شریف اور پھر مسنون دعا پڑھنی چاہیے۔‘[ السنن الکبری للنسائی وابن حبان ]

4-جمعہ کے روز
حضرت اوس بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی بعض خصوصیات ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا :
(۔۔۔فَأَکْثِرُوْا عَلَیَّ مِنَ الصَّلاَۃِ فِیْہِ ، فَإِنَّ صَلاَتَکُمْ مَعْرُوْضَۃٌ عَلَیَّ قَالَ : قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اﷲﷺِ ! وَکَیْفَ تُعْرَضُ صَلاَتُنَا عَلَیْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ ؟ قَالَ : یَقُوْلُوْنَ : بَلَیْتَ ، فَقَالَ : إِنَّ اﷲَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَی الْأرْضِ أَجْسَادَ الْأنْبِیَائِ)
’’ لہذا تم اس دن مجھ پر زیادہ درود بھیجا کرو ، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ ( قبر میںآپ کا جسدِ اطہر ) تو بوسیدہ ہو جائے گا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر یہ بات حرام کردی ہے کہ وہ انبیا کے جسموں کو کھائے۔‘‘ [ ابو داؤد :۱۰۴۷ ۔ وصححہ الالبانی ]

5- صبح وشام
حضرت ابودردائ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(مََنْ صَلّٰی عَلَیَّ حِیْنَ یُصْبِحُ عَشْرًا ، وَحِیْنَ یُمْسِیْ عَشْرًا ، أَدْرَکَتْہُ شَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) [ صحیح الجامع : ۶۳۵۷ ]
’’جو آدمی صبح کے وقت دس مرتبہ اور شام کے وقت دس مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے ، اسے قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہو گی۔‘‘

دوم
احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجنا چاہیے، جہاں تک یہ سوال رہا کہ اگر ایک تقریر میں دس مرتبہ درود بھیجا جائے تو کیا دس مرتبہ جواب دینا ضروری ہے، جی ہاں بالکل، اگر سو مرتبہ بھی درود بھیجا جائے تو سو مرتبہ ہی جواب دیا جائیگا-

سوم
درود و سلام ایک ایسا محبوب و مقبول عمل ہے جس سے گناہ معاف ہوتے ہیں، شفا حاصل ہوتی ہے اور دل و جان کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے، اس سے بڑھ کر یہ کہ صلوٰۃ و سلام کسی صورت میں اور کسی مرحلہ پر بھی قابلِ رد نہیں بلکہ یہ ایسا عمل ہے جو اللہ تعالٰیٰ کی بارگاہ میں ضرور مقبول ہوتا ہے اگر نیک پڑھیں تو درجے بلند ہوتے ہیں اور اگر فاسق و فاجر پڑھے تو نہ صرف یہ کہ اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں بلکہ اس کا پڑھا ہوا درود و سلام بھی قبول ہوتا ہے۔

واللہ اعلم

1023-نماز کے بعد کے اذکار

س-نماز کے بعد کے اذکار بیان کریں

الحمدللہ

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَلَّمَ لَمْ يَقْعُدْ إِلَّا مِقْدَارَ مَا يَقُوْلُ اللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ وَفِيْ رِوَايَةِ بْنِ نُمَيْرٍ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ. (مسلم، رقم 1335)

حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد بس اتنی ہى مقدار بيٹهتے جس میں آپ ''اے اللہ، تو سراسر سلامتى ہے اور سلامتى سب تيرى ہى طرف سے ہے، اے عزت و جلال كے مالك ، تيرى ذات بڑى ہى بابركت ہے'' كے الفاظ كہہ ليتے تهے۔

عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلٰوتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقَالَ: أَللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ.(مسلم، رقم 1334)

حضرت ثوبان (رضى الله عنہ) سے روايت ہے كہ جب رسول الله صلى الله عليہ وسلم نماز سے سلام پهيرتے تو تين دفعہ استغفار كرتے اور يہ كہتے كہ اے اللہ، تو سراسر سلامتى ہے اور سلامتى سب تيرى ہى طرف سے ہے، اے عزت و جلال كے مالك ، تيرى ذات بڑى ہى بابركت ہے۔

عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلٰى رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَّنْصَرِفَ مِنْ صَلٰوتِهِ اسْتَغْفَرَ اللهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قال: أَللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ. (ترمذى، رقم 300)

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم كے آزاد كرده غلام ثوبان (رضى الله عنہ) سے روايت ہے كہ جب رسول الله صلى الله عليہ وسلم نماز سے اٹهنے كا اراده كرتے تو تين دفعہ كلمۂ استغفار كہتے،پهر يہ كہتے كہ اے اللہ، تو سراسر سلامتى ہے اور سلامتى سب تيرى ہى طرف سے ہے، اے عزت و جلال كے مالك ، تيرى ذات بڑى ہى بابركت ہے۔

عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَى الْمُغِيْرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: كَتَبَ الْمُغِيْرَةُ إِلٰى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِيْ سُفْيَانَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُوْلُ فِيْ دُبُرِ كُلِّ صَلٰوةٍ إِذَا سَلَّمَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ أَللّٰهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ. (بخارى، رقم 6330)

حضرت مغیرہ بن شعبہ( رضی اللہ عنہ) کے آزاد كرده غلام ورَّاد نے بیان کیا کہ مغیرہ بن شعبہ نے معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ عنہما) کو لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرنماز کے بعد جب سلام پھیرتے تو یہ کہا کرتے تھے: 'لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ، أَللّٰهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ' (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کے لیے ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے، اے اللہ،جو کچھ تو نے دیا ہے، اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو کچھ تو نے روک دیا، اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی بزرگى والے كو اس كى بزرگى(تیری بارگاہ میں)نفع نہیں دےسكتى)۔

عَنْ أَبِيْ الزُّبَيْرِ قَالَ: كَانَ بْنُ الزُّبَيْرِ يَقُوْلُ فِيْ دُبُرِ كُلِّ صَلٰوةٍ حِيْنَ يُسَلِّمُ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِيَّاهُ لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُوْنَ وَقَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهَلِّلُ بِهِنَّ دُبُرَ كُلِّ صَلٰوةٍ. (مسلم، رقم 1343)

ابوزبیر سے روایت ہے کہ ابن زبیر ( رضی اللہ عنہ) ہر نماز میں جب بھی سلام پھیر تے تو یہ کہتےكہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت اور اسی کے لیے سارى حمد ہےاور وہ ہر چیز پر قادر ہے،ہمت اور قدرت دينے والا الله كےسوا كوئى نہيں،اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں،ساری نعمتیں اسی کی عطا كرده ہیں،اسی کا فضل ہے،اچهى ثنا اسى كےليے ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، ہم اطاعت كو اسى كےليے خالص كرتےہيں، اگرچہ يہ کافر ناپسند کریں۔راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد یہ کلمات پڑھا کرتے تھے۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا سَلَّمَ قَالَ: أَللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ. (نسائى، رقم 1339)

حضرت عائشہ رضى الله عنہا سے روايت ہے كہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم جب سلام پهيرتے تهے تو كہتے:اے اللہ ،تو سراسر سلامتى ہے اور سار ى كى سارى سلامتى تيرى ہى طرف سے ہے، اے عزت و جلال كے مالك، تيرى ذات بڑى بابركت ہے۔

عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ الْفُقَرَاءُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوْا: ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُوْرِ مِنَ الْأَمْوَالِ بِالدَّرَجَاتِ الْعُلَا وَالنَّعِيْمِ الْمُقِيْمِ يُصَلُّوْنَ كَمَا نُصَلِّيْ وَيَصُومُوْنَ كَمَا نَصُوْمُ وَلَهُمْ فَضْلٌ مِّنْ أَمْوَالٍ يَحُجُّوْنَ بِهَا وَيَعْتَمِرُوْنَ وَيُجَاهِدُوْنَ وَيَتَصَدَّقُوْنَ قَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِأَمْرِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ أَدْرَكْتُمْ مَنْ سَبَقَكُمْ وَلَمْ يُدْرِكْكُمْ أَحَدٌ بَعْدَكُمْ وَكُنْتُمْ خَيْرَ مَنْ أَنْتُمْ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِ إِلَّا مَنْ عَمِلَ مِثْلَهُ تُسَبِّحُوْنَ وَتَحْمَدُوْنَ وَتُكَبِّرُوْنَ خَلْفَ كُلِّ صَلٰوةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِيْنَ فَاخْتَلَفْنَا بَيْنَنَا فَقَالَ بَعْضُنَا: نُسَبِّحُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِيْنَ وَنَحْمَدُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِيْنَ وَنُكَبِّرُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِيْنَ فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ: تَقُوْلُ: سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَاللهُ أَكْبَرُ حَتّٰى يَكُوْنَ مِنْهُنَّ كُلِّهِنَّ ثَلَاثًا وَثَلَاثِيْنَ.(بخارى، رقم 843)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ نادار لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ امیر و رئیس لوگ بلند درجات اور ہمیشہ رہنے والی جنت حاصل کر گئے،حالاں کہ جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں، وہ بھی پڑھتے ہیں اور جیسے ہم روزے رکھتے ہیں، وہ بھی رکھتے ہیں، لیکن مال و دولت کی وجہ سے انھیں ہم پر فوقیت حاصل ہے۔چنانچہ اس کی وجہ سے وہ حج کرتے،عمرہ کرتے،جہاد کرتے اور صدقے دیتے ہیں،(اور ہم محتاجی کی وجہ سے ان کاموں کو نہیں کر پاتے)اس پر آپ نے فرمایا: لو میں تمھیں ایک ایسا عمل بتاتا ہوں کہ اگر تم اس کی پابندی کرو گے تو جو لوگ تم سے آگے بڑھ چکے ہیں، انھیں تم پالو گے اور تمھارے مرتبہ تک پھر کوئی نہیں پہنچ سکتا اور تم سب سے اچھے ہو جاؤ گے سوائے ان کے جو یہی عمل شروع کر دیں، ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس مرتبہ تسبیح (سُبْحَانَ الله)، تحمید (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ) اورتکبیر (أَللهُ أَکْبَرُ) کہا کرو۔پھر ہم میں اختلاف ہو گیا کسی نے کہا کہ ہم تسبیح تینتیس مرتبہ، تحمید تینتیس مرتبہ اور تکبیر چونتیس مرتبہ کہیں گے۔میں نے اس پر آپ سے دوبارہ معلوم کیا تو آپ نے فرمایا کہ 'سُبْحَانَ الله' اور 'اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ'اور 'أَللهُ أَکْبَرُ' کہو تاآنکہ ہر ایک ان میں سے تینتیس مرتبہ ہو جائے۔

عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ أَنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِيْنَ أَتَوْا رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوْا: ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُوْرِ بِالدَّرَجَاتِ الْعُلٰي وَالنَّعِيْمِ الْمُقِيْمِ فَقَالَ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالُوْا: يُصَلُّوْنَ كَمَا نُصَلِّيْ وَيَصُوْمُوْنَ كَمَا نَصُوْمُ وَيَتَصَدَّقُوْنَ وَلاَ نَتَصَدَّقُ وَيُعْتِقُوْنَ وَلَا نُعْتِقُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفَلَا أُعَلِّمُكُمْ شَيْئًا تُدْرِكُوْنَ بِهِ مَنْ سَبَقَكُمْ وَتَسْبِقُوْنَ بِهِ مَنْ بَعْدَكُمْ وَلَا يَكُوْنُ أَحَدٌ أَفْضَلَ مِنْكُمْ إِلَّا مَنْ صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُمْ قَالُوْا: بَلٰى يَا رَسُوْلَ اللهِ قَالَ: تُسَبِّحُوْنَ وَتُكَبِّرُوْنَ وَتَحْمَدُوْنَ دُبُرَ كُلِّ صَلٰوةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِيْنَ مَرَّةً قَالَ أَبُوْ صَالِحٍ: فَرَجَعَ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِيْنَ إِلٰى رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوْا: سَمِعَ إِخْوَانُنَا أَهْلُ الْأَمْوَالِ بِمَا فَعَلْنَا فَفَعَلُوْا مِثْلَهُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذٰلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاءُ. (مسلم، رقم 1347)

حضرت ابوہریرہ( رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ مہاجرین فقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض كيا کہ مال دار لوگ تو اعلیٰ درجہ اور ہمیشہ کی نعمتوں میں چلے گئے، آپ نے پوچها: وہ کیسے؟ انھوں نے عرض کیا کہ وہ بھی نماز پڑھتے ہیں، جس طرح کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور وہ بھی روزہ رکھتے ہیں، جس طرح کہ ہم روزہ رکھتے ہیں اور مزيد يہ كہ وہ صدقہ نکالتے ہیں اور ہم صدقہ نہیں دے سکتے، وہ غلام آزاد کرتے ہیں اور ہم غلام آزاد نہیں کر سکتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمھیں کوئی ایسی چیز نہ سکھاؤں کہ جس سے تم سبقت لے جانےوالوں كو پا لو اور اپنے بعد والوں سے آگے بڑھ جاؤ اور کوئی تم سے افضل نہ ہو، سوائے اس کے کہ جو تمھارے جیسے کام کرے، انھوں نے عرض کیا کہ ہاں، اے اللہ کے رسول، فرمائیے!آپ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس مرتبہ 'سُبْحَانَ اللهِ' اور 'أَللهُ أَکْبَرُ' اور 'اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ' پڑھا کرو۔ راوی ابوصالح کہتے ہیں کہ مہاجرین فقرادوبارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض كيا کہ ہمارے مال دار بھائیوں نے بھی یہ سن لیا ہے اور وہ بھی اسی طرح کرنے لگے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔

عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَبَّحَ اللهَ فِيْ دُبُرِ كُلِّ صَلٰوةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِيْنَ وَحَمِدَ اللهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِيْنَ وَكَبَّرَ اللهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِيْنَ فَتْلِكَ تِسْعَةٌ وَتِسْعُوْنَ وَقَالَ تَمَامَ الْمِائَةِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ غُفِرَتْ خَطَايَاهُ وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ.(مسلم، رقم 1352)

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روايت كرتےہيں کہ آپ نے فرمايا: جس آدمی نے ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ 'سُبْحَانَ اللهِ' تینتیس مرتبہ 'اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ' اور تینتیس مرتبہ 'اَللَّهُ أَکْبَرُ' کہا، یہ ننانوے کلمات ہو گئے اور سو کا عدد پورا کرنے کےلیے 'لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ' کہا تو اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے، چاہے وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔

عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مُعَقِّبَاتٌ لَا يَخِيْبُ قَائِلُهُنَّ أَوْ فَاعِلُهُنَّ دُبُرَ كُلِّ صَلٰوةٍ مَكْتُوْبَةٍ ثَلَاثٌ وَثَلَاثُوْنَ تَسْبِيحَةً وَثَلَاثٌ وَثَلَاثُوْنَ تَحْمِيْدَةً وَأَرْبَعٌ وَثَلَاثُوْنَ تَكْبِيرَةً.(مسلم، رقم 1349)

حضرت کعب بن عجرہ( رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روايت كرتے ہيں كہ آپ نے فرمایا: ہر فرض نماز کے بعد کچھ دعائیں ایسی ہیں کہ جن کو پڑھنے والا یا اختيار کرنے والا کبھی محروم نہیں ہوتا، تینتیس مرتبہ تسبيح 'سُبْحَانَ اللهِ' كے الفاظ سے، تینتیس مرتبہ تحميد 'اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ' کے الفاظ سے اور چونتیس مرتبہ تكبير 'اَللهُ أَکْبَرُ' كےالفاظ سے۔

عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: أُمِرْنَا أَنْ نُسَبِّحَ فِيْ دُبُرِ كُلِّ صَلٰوةٍ ثَلاَثاً وَثَلاَثِيْنَ وَنَحْمَدَ ثَلاَثاً وَثَلاَثِيْنَ وَنُكَبِّرَ أَرْبَعاً وَثَلاَثِيْنَ فَأُتِىَ رَجُلٌ فِي الْمَنَامِ مِنَ الأَنْصَارِ فَقِيْلَ لَهُ: أَمَرَكُمْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُسَبِّحُوْا فِيْ دُبُرِ كُلِّ صَلٰوةٍ كَذٰا وَكَذٰا قَالَ الْأَنْصَارِيُّ فِيْ مَنَامِهِ نَعَمْ قَالَ فَاجْعَلُوْهَا خَمْسًا وَعِشْرِيْنَ خَمْسًا وَعِشْرِينَ وَاجْعَلُوْا فِيْهَا التَّهْلِيْلَ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَافْعَلُوا. (احمد، رقم 21090)

حضرت زيد بن ثابت سے روايت ہےكہ ہميں ہر نمازكے بعدتینتیس دفعہ تسبيح كرنے ،تینتیس دفعہ تحميد كرنے اورچونتیس دفعہ تكبير كرنے كا حكم ديا گيا ہے۔ پهر انصار كے ايك آدمى كو خواب ميں كہا گيا كہ تمهيں رسول الله صلى الله عليہ وسلم نےاس اس طريقے سے تسبيح كرنے كا حكم ديا ہےتو اس نے خواب ہى ميں كہا كہ ہاں ،تو اس كہنے والے نے كہا كہ تم يہ تينوں الفاظ توپچیس پچیس دفعہ كہو اور اس كے ساتھ ایک دفعہ 'لاَ اِلٰهَ اِلَّا الله' كہو۔پهر صبح كو جب ان صحابى نے نبى صلى الله عليہ وسلم سے اپنا يہ خواب بيان كيا تو آپ نے كہا كہ اسى طرح كر لو۔

عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: أُمِرْنَا أَنْ نُسَبِّحَ فِيْ دُبُرِ كُلِّ صَلٰوةٍ ثَلاَثاً وَثَلاَثِيْنَ تَسْبِيْحَةً وَنَحْمَدَ ثَلاَثاً وَثَلاَثِيْنَ تَحْمِيْدَةً وَنُكَبِّرَ أَرْبَعاً وَثَلاَثِيْنَ تَكْبِيرَةً قَالَ: فَرَاَٰى رَجُلٌ فِي الْمَنَامِ فَقَالَ أُمِرْتُمْ بِثَلاَثٍ وَثَلاَثِيْنَ تَسْبِيْحَةً وَثَلاَثٍ وَثَلاَثِيْنَ تَحْمِيْدَةً وَأَرْبَعٍ وَثَلاَثِيْنَ تَكْبِيرَةً فَلَوْ جَعَلْتُمْ فِيْهَا التَّهْلِيْلَ فَجَعَلْتُمُوْهَا خَمْساً وَعِشْرِيْنَ فَذَكَرْتُ ذٰلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَدْ رَأَيْتُمْ فَافْعَلُوْا. (احمد، رقم 21150)

حضرت زيد بن ثابت سے روايت ہےكہ ہميں ہر نمازكے بعدتینتیس دفعہ تسبيح كرنے ،تینتیس دفعہ تحميد كرنے اورچونتیس دفعہ تكبير كرنے كا حكم ديا گيا تها۔ پهر ايك آدمى سے يہ خواب ميں كہا گيا كہ تمهيں حكم ديا گيا ہے كہ تم تینتیس دفعہ تسبيح كرو، تینتیس دفعہ تحميد كرواورچونتیس دفعہ تكبير كرو،اگر تم اس ميں تہليل كو بهى شامل كر لو، تو تم يہ سب پچیس پچیس دفعہ كر ليا كرو۔ اس صحابى نے يہ سارى بات نبى صلى الله عليہ وسلم سے بيان كى، آپ نے پوچها :تم نے واقعى يہ خواب ديكها ہے تو ايسا ہى كرو۔

٢٣٥- کیا مرغ یا انڈے کی قربانی جائز ہے.؟

✍🏻مجاہدالاسلام عظیم آبادی سوال-مدعیان عمل بالحدیث کا ایک گروہ مرغ کی قربانی کو مشروع اورصحابہ کرام کا معمول بہ قرار دیتا ہے۔اور ان میں سے ...