Wednesday, September 26, 2018

1018- عدت کے مسائل


س: عدت کا کیا حکم ہے اور بیوی کتنے دنوں تک عدت کرے گی.؟ اسکے مسائل واضح کریں
الحمدللہ
راوی:
مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ عدت کا بیان۔ ۔ حدیث 525
وعن أم حبيبة وزينب بنت جحش عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تحد على ميت فوق ثلاث ليال إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا "
(2/256)
3331 – [ 8 ] ( متفق عليه )
وعن أم عطية أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " لا تحد امرأة على ميت فوق ثلاث إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا ولا تلبس ثوبا مصبوغا إلا ثوب عصب ولا تكتحل ولا تمس طيبا إلا إذا طهرت نبذة من قسط أو أظفار " . متفق عليه . وزاد أبو داود : " ولا تختضب "

اور حضرت ام حبیبہ اور حضرت زینب بنت جحش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بھی عورت اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے ہاں اپنے شوہر کا سوگ چار مہینے دس دن تک کیا کرے ( بخاری ومسلم)
تشریح :
سوگ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بناؤ سنگھار ترک کر دے اور خوشبو وسرمہ وغیرہ لگانے سے پرہیز کرے چنانچہ یہ سوگ کرنا کسی دوسری میت پر تو تین دن سے زیادہ جائز نہیں ہے ۔ لیکن اپنے شوہر کی وفات پر چار مہینے دس دن تک یعنی ایام عدت میں سوگ کرنا واجب ہے۔
اب رہی یہ بات کہ چار مہینہ دس دن یعنی عدت کی مدت کی ابتداء کب سے ہوگی تو جمہور علماء کے نزدیک اس مدت کی ابتداء خاوند کی موت کے بعد سے ہوگی لیکن حضرت علی اس کے قائل تھے کہ عدت کی ابتداء اس وقت سے ہو گی جس وقت کہ عورت کو خاوند کے انتقال کی خبر ہوئی ہے لہذا اگر کسی عورت کا خاوند کہیں باہر سفر وغیرہ میں مر گیا اور اس عورت کو اس کی خبر نہیں ہوئی یہاں تک کہ چار مہینے دس دن گزر گئے تو جمہور علماء کے نزدیک عدت پوری ہوگئی جب کہ حضرت علی کے قول کے مطابق اس کی عدت پوری نہیں ہوگی بلکہ اس کو خبر ہونے کے وقت سے چار مہینے دس دن تک عدت میں بیٹھنا ہوگا۔
اور حضرت ام عطیہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی عورت کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ کرے ہاں اپنے شوہر کے مرنے پر چار مہینے دس دن تک سوگ کرے اور ان ایام یعنی زمانہ عدت میں عصب کے علاوہ نہ تو کوئی رنگین کپڑا پہنے نہ سرمہ لگائے اور نہ خوشبو لگائے البتہ حیض سے پاک ہوتے وقت تھوڑا سا قسط یا اظفار استعمال کرے تو قباحت نہیں ( بخاری ومسلم)
تشریح :
رنگین کپڑے سے مراد وہ کپڑا ہے جو کسم ، زعفران اور گیرو وغرہ کے تیز اور شوخ رنگ میں رنگا گیا ہو اور عام طور پر زینت و آرائش کے طور پر پہنا جاتا ہو اور کتاب کافی میں لکھا ہے کہ اگر کسی عورت کے پاس رنگین کپڑوں کے علاوہ اور کوئی کپڑا نہ ہو تو وہ رنگین کپڑا بھی پہن سکتی ہے کیونکہ اس کی سترپوشی بہرحال زیادہ ضروری ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ان رنگین کپڑوں کو زیب و زینت کے مقصد سے استعمال نہ کرے۔
عصب اس زمانہ میں ایک خاص قسم کی چادر کو کہتے تھے جو اس طور پر بنی ہوتی تھی کہ پہلے سوت کو جمع کر کے ایک جگہ باندھ لیتے تھے پھر اس کو کسم میں رنگتے تھے اور اس کے بعد اس کو بنتے تھے چنانچہ وہ سرخ رنگ کی ایک چادر ہو جاتی تھی جس میں سفید دھاریاں بھی ہوتی تھیں کیونکہ سوت کو باندھ کر رنگنے کی وجہ سے سوت کا وہ حصہ سفید رہ جاتا تھا جو بندھا ہوا ہوتا تھا ۔
اس سے بھی معلوم ہوا کہ عدت والی عورت کو رنگین کپڑا پہننے کی جو ممانعت ہے اس کا تعلق اس کپڑے سے ہے جو بننے کے بعد رنگا گیا ہو تو اس کا پہننا بھی درست ہے۔
علامہ ابن ہمام حنفی یہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء حنفیہ کے نزدیک عدت والی عورت کو عصب کا پہننا بھی درست نہیں ہے حضرت امام شافعی کے نزدیک عدت والی عورت کو عصب پہننا جائز ہے خواہ وہ موٹا ہو یا مہین ہو جب کہ حضرت امام مالک مہین عصب کو پہننے سے منع کرتے ہیں موٹے عصب کو منع نہیں کرتے۔
سرمہ لگانے کے سلسلہ میں ائمہ کے جو اختلافی اقوال ہیں وہ پیچھے حضرت ام سلمہ کی روایت کے ضمن میں بیان کئے جا چکے ہیں علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ حنفی مسلک کے مطابق عدت والی عورت کو مجبوری کی حالت میں سرمہ لگانا جائز ہے ویسے جائز نہیں ہے۔
قسط اور اظفار یہ دونوں ایک قسم کی خوشبو ہیں قسط تو عود کو کہتے ہیں جس عام طور پر عورتیں یا بچے دھونی لیتے ہیں کرمانی نے کہا ہے کہ قسط عود ہندی کو کہتے ہیں جسے اگر یا کوٹ کہا جاتا ہے۔
اظفار ایک قسم کا عطر ہوتا تھا یہ دونوں خوشبوئیں اس زمانہ میں عام طور پر عرب کی عورتیں حیض سے پاک ہوتے وقت بدبو دور کرنے کے لئے شرمگاہ میں استعمال کرتی تھیں ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عدت والی عورت کو خوشبو استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن حائضہ کو حیض سے پاک ہوتے وقت بدبو دور کرنے کے لئے ان دونوں خوشبوؤں کے استعمال کی اجازت دے دی۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس عورت کا خاوند مر گیا ہو اس پر عدت کے زمانہ میں سوگ کرنا واجب ہے چنانچہ اس پر تمام علماء کا اجماع واتفاق ہے البتہ سوگ کی تفصیل میں اختلافی اقوال ہیں۔
حضرت امام شافعی اور جمہور علماء تو یہ کہتے ہیں کہ خاوند کی وفات کے بعد ہر عدت والی عورت پر سوگ کرنا واجب ہے خواہ وہ مدخول بہا ہو یعنی جس کے ساتھ جماع ہو چکا ہو یا غیر مدخول بہا ہو ( یعنی جس کے ساتھ جماع نہ ہوا ہو) خواہ چھوٹی ہو یا بڑی خواہ باکرہ ہو یا ثیبہ خواہ آزاد ہو یا لونڈی اور خواہ مسلمہ ہو یا کافرہ۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک سات قسم کی عورتوں پر سوگ واجب نہیں ہے جس کی تفصیل درمختار کے مطابق یہ ہے کہ
(١) کافرہ (٢) مجنونہ (٣) صغیرہ (٤) معتدہ عتق یعنی وہ ام ولد جو اپنے مولیٰ کی طرف سے آزاد کئے جانے یا اپنے مولیٰ کے مر جانے کی وجہ سے عدت میں بیٹھی ہو (٥) وہ عورت جو نکاح فاسد کی عدت میں بیٹھی ہو (٦) وہ عورت جو وطی بالشبہ کی عدت میں بیٹھی ہو یعنی جس سے کسی غیر مرد نے غلط فہمی میں جماع کر لیا ہو اور اس کی وجہ سے عدت میں بیٹھی ہو (٧) وہ عورت جو طلاق رجعی کی عدت میں بیٹھی ہو ۔
جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ خاوند کے علاوہ کسی کے مرنے پر عورت کو تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں ہے اور تین دن تک بھی صرف مباح ہے واجب نہیں ہے چنانچہ اگر تین دنوں میں بھی خاوند سوگ کرنے سے منع کرے تو اس کو اس کا حق ہے کیونکہ بیوی کے بناؤ سنگار کا تعلق خاوند کے حق سے ہے اگر تین دنوں میں خاوند کی خواہش یہ ہو کہ وہ سوگ ترک کر کے بناؤ سنگار کرے اور بیوی خاوند کا کہنا نہ مانے تو اس بات پر بیوی کو مارنا خاوند کے لئے جائز ہے کیونکہ سوگ کرنے میں خاوند کا حق فوت ہو جاتا ہے۔
سوگ کے احکام و مسائل
جس عورت کو طلاق رجعی ملی ہو اس کی عدت تو فقط اتنی ہی ہے کہ وہ مقررہ مدت تک گھر سے باہر نہ نکلے اور نہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اس کے لئے بناؤ سنگھار وغیرہ درست ہے اور جس عورت کو جو مکلفہ مسلمہ یعنی بالغ و عاقل اور مسلمان ہو تین طلاقیں مل گئیں یا ایک طلاق بائن یا اور کسی طرح سے نکاح ٹوٹ گیا یاخاوند مر گیا تو ان سب صورتوں میں اس کے لئے یہ حکم ہے کہ جب تک عدت میں رہے تب تک نہ تو گھر سے باہر نکلے نہ اپنا دوسرا نکاح کرے اور نہ بناؤ سنگھار کرے یہ سب باتیں اس پر حرام ہیں۔ اس سنگھار نہ کرنے اور میلے کچیلے رہنے کو سوگ کہتے ہیں۔
جب تک عدت ختم نہ ہو تب تک خوشبو لگانا کپڑے بسانا زیور گہنا پہننا پھول پہننا سرمہ لگانا پان کھا کر منہ لال کرنا مسی مسلنا سر میں تیل ڈالنا کنگھی کرنا مہندی لگانا اچھے کپڑے پہننا ریشمی اور رنگے ہوئے بہار دار کپڑے پہننا یہ سب باتیں ممنوع ہیں۔ ہاں مجبوری کی حالت میں اگر ان میں سے کوئی چیز اختیار کی گئی تو کوئی مضائقہ نہیں مثلا سر میں درد ہونے کی وجہ سے تیل ڈالنے کی ضرورت پڑے تو بغیر خوشبو کا تیل ڈالنا درست ہے اسی طرح دوا کے لئے سرمہ لگانا بھی ضرورت کے وقت درست ہے۔
جس عورت کا نکاح صحیح نہیں ہوا تھا بلکہ بے قاعدہ ہو گیا تھا اور وہ فسخ کرا دیا گیا یا خاوند مر یا تو ایسی عورت پر سوگ کرنا واجب نہیں ہے۔ اسی طرح جو عورت عتق یعنی آزادی کی عدت میں ہو جیسے ام ولد کو اس کا مولیٰ آزاد کر دے اور وہ اس کیوجہ سے عدت میں بیٹھی ہو تو اس پر سوگ کرنا واجب نہیں ہے۔
جو عورت عدت میں بیٹھی ہو اس کے پاس نکاح کا پیغام بھیجنا جائز نہیں ہے ہاں نکاح کا کنایۃ یعنی یہ کہنا کہ میں اس عورت سے نکاح کرنے کی خواہش رکھتا ہوں یا اس سے نکاح کرنے کا میں ارادہ رکھتا ہوں جائز ہے، مگر یہ بھی اس صورت میں جائز ہے کہ جب کہ وہ عورت وفات کی عدت میں بیٹھی ہو اگر طلاق کی عدت میں بیٹھی ہو تو یہ بھی جائز نہیں ہے۔
جو عورت طلاق کی عدت میں بیٹھی ہو اس کو تو کسی بھی وقت گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے ہاں جو عورت وفات کی عدت میں بیٹھی ہو وہ دن میں نکل سکتی ہے اور کچھ رات تک نکل سکتی ہے مگر رات اپنے گھر سے علاوہ دوسری جگہ بسر نہ کرے لونڈی اپنے آقا کے کام سے گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔
معتدہ (عدت والی عورت) کو اپنی عدت کے دن اسی مکان میں گزارنے چاہئیں جس میں وہ فسخ وطلاق یا خاوند کی موت کے وقت سکونت پذیر ہو ہاں اگر اس مکان سے زبردستی نکالا جائے اس مکان میں اپنے مال واسباب کے ضائع ہونے کا خوف ہو یا اس مکان کے گر پڑنے کا خطرہ ہو اور یا اس مکان کا کرایہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو ان صورتوں میں کسی دوسرے مکان میں عدت بیٹھنا جائز ہے۔
اسی طرح اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ میاں بیوی ایک ہی مکان میں رہیں اگرچہ وہ طلاق بائن کی عدت میں بیٹھی ہو بشرطیکہ دونوں کے درمیان پردہ حائل رہے ہاں اگر خاوند فاسق اور ناقابل اعتماد ہو یا مکان تنگ ہو تو عورت اس گھر سے منتقل ہو جائے اگرچہ خاوند کا منتقل ہونا اولی ہے اور اگر میاں بیوی کے ایک ہی مکان میں رہنے کی صورت میں وہ دونوں اپنے ساتھ کسی ایسی معتمد عورت کو رکھ لیں جو دونوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے پر قادر ہو تو بہت ہی اچھا ہے۔
اگر مرد عورت کو اپنے ساتھ سفر میں لے گیا اور پھر سفر کے دوران اس کو طلاق بائن یا تین طلاقیں دیدیں یا مرد مر گیا اور عورت کا شہر یعنی اس کا وطن اس جگہ سے کہ جہاں طلاق یا وفات واقع ہوئی ہے سفر شرعی یعنی تین دن کے سفر سے کم مسافت پر واقع ہو تو وہ اپنے شہر واپس آ جائے اور اگر اس مقام سے جہاں طلاق یا وفات ہوئی ہے اس کا شہر سفر شرعی ( یعنی تین دن کی مسافت) کے بقدر یا اس سے زائد فاصلہ پر واقع ہے اور وہ منزل مقصود (جہاں کے لئے سفر اختیار کیا تھا) اس مسافت سے کم فاصلہ پر واقع ہے تو اپنے شہر واپس آنے کی بجائے منزل مقصود چلی جائے اور ان دونوں صورتوں میں خواہ اس کا ولی اس کے ساتھ ہو یا ساتھ نہ ہو لیکن بہتر یہ ہے کہ وہ عورت طلاق یا وفات کے وقت کسی شہر میں ہو تو وہاں سے عدت گزارے بغیر نہ نکلے تو کسی محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد یہ فرماتے ہیں کہ اگر اس کا کوئی محرم اس کے ساتھ ہو تو پھر عدت سے پہلے بھی اس شہر سے نکل سکتی ہے۔

واللہ اعلم 

Monday, September 10, 2018

1017-طلاق دینے اور رجوع کرنے کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟؟؟

س-طلاق دینے اور رجوع کرنے کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟؟؟

الحمد للہ 

اس مسئلہ میں کافی اختلاف کیا جاتا ہے - لیکن اختلاف کرنا نہیں چاہیے ، تاہم اگر اختلاف ہو جائے تو اس کا حل کہاں سے لینا ہے ؟؟؟
اس کا جواب بھی الله نے قرآن میں دیا ہے الحمد لله -
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 

اے اہل ایمان ! اطاعت کرو الله کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے میں سے اولوالامر کی بھی ، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں اختلاف ہوجائے ، تو اسے لوٹا دو الله اور رسول کی طرف ، اگر تم واقعی الله پر اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ‘ ہو یہی طریقہ بہتر بھی ہے اور نتائج کے اعتبار سے بھی بہت مفید ہے
(النساء -59)

قارئین کرام ! یہاں یہ بات بہت قابل غور ہے کہ الله تعالیٰ نے فرمایا (تو اسے لوٹا دو الله اور رسول کی طرف ، اگر تم واقعی الله پر اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ‘ ہو) یعنی الله او رسول کی طرف سے جو فیصلہ آئے اسے قبول کرنا ہے اور الله اور اس کے رسول کی طرف صرف وہی لوٹائیں گے جو اہل ایمان ہیں -
یہ الفاظ (اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ) اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ایمان والے وہی ہیں جو صرف الله اور اس کے رسول کی پیروی کرتے ہیں -
اور جو ایمان والے نہیں ہیں وہ اختلاف کو اپنے آباؤ اجداد کی طرف لوٹاتے ہیں اور جو بھی وہاں سے بات ملتی ہے بس اسی کی تقلید کرنے لگ جاتے ہیں -یہ روش بالکل غلط ہے - جو کوئی ایسا کرتا ہے ، اس آیت کو پڑھ کر اسے اپنے ایمان کے متعلق سوچنا چاہیے -
بہر حال قارئین ! مضمون کو طول دینا تو نہیں چاہتے , لیکن یہ موضوع ہے ہی ایسا کہ اس پر مکمل تفصیل سے بات کی جائے -
ہم آپ کے سامنے صرف قرآن اور حدیث نبوی کی روشنی میں مسئلہ کا حل رکھ دیتا ہوں ان شاء الله ، 
پھر آپ ان دلائل کا مطالعہ کیجیے اور پھر اپنا محاسبہ کیجیے کہ آپ کس طرف چل رہے ہیں -
طلاق دینے اور رجوع کرنے کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟؟؟

الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ۭ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ اَلَّايُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۙ فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ۭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ

طلاق(رجعی) دو مرتبہ ہے پھر یا تو معروف طریقے سے روک لینا ہے یا پھر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردینا ہے اور تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ بھی واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ حدود اللہ کو قائم نہیں رکھ سکیں گے پس اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہیں رہ سکتے ‘ تو ان دونوں پر اس معاملے میں کوئی گناہ نہیں ہے جو عورت فدیہ میں دے یہ اللہ کی حدود ہیں ‘ پس ان سے تجاوز مت کرو اور جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہی ظالم ہیں
(البقرہ -229)

قارئین ! دور جاہلیت میں عرب میں ایک دستور یہ بھی تھا کہ مرد کو اپنی بیوی کو لاتعداد طلاقیں دینے کا حق حاصل تھا۔ ایک دفعہ اگر مرد بگڑ بیٹھتا، اور اپنی بیوی کو تنگ اور پریشان کرنے پر تل جاتا تو اس کی صورت یہ تھی کہ طلاق دی اور عدت کے اندر رجوع کرلیا پھر طلاق دی پھر رجوع کرلیا اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا، نہ وہ عورت کو اچھی طرح اپنے پاس رکھتا اور نہ ہی اسے آزاد کرتا کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرسکے۔ 
چنانچہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک مرد اپنی عورت کو جتنی بھی طلاقیں دینا چاہتا، دیئے جاتا اور عدت کے اندر رجوع کرلیتا۔ اگرچہ وہ مرد سو بار یا اس سے زیادہ طلاقیں دیتا جائے۔ یہاں تک کہ ایک (انصاریٰ) مرد نے اپنی بیوی سے کہا : اللہ کی قسم! میں نہ تجھ کو طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہو سکے اور نہ ہی تجھے بساؤں گا۔'' اس عورت نے پوچھا : وہ کیسے؟ وہ کہنے لگا، میں تجھے طلاق دوں گا اور جب تیری عدت گزرنے کے قریب ہوگی تو رجوع کرلوں گا۔'' یہ جواب سن کر وہ عورت حضرت عائشہ (رض) کے پاس گئی اور اپنا یہ دکھڑا سنایا۔ حضرت عائشہ (رض) خاموش رہیں تاآنکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ حضرت عائشہ (رض) نے آپ کو یہ ماجرا سنایا تو آپ بھی خاموش رہے۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ ( اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ۭ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ اَلَّايُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۙ فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ۭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ٢٢٩۔) 2۔ البقرة :229) (ترمذی۔ ابو اب الطلاق٫ اللعان(
اس آیت سے اسی معاشرتی برائی کا سدباب کیا گیا اور مرد کے لیے صرف دو بار طلاق دینے اور اس کے رجوع کرنے کا حق رہنے دیا گیا۔ 
قارئین ! طلاق دینے کا مسنون اور سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ مرد حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور پوری عدت گزر جانے دے۔
فائدہ یہ ہے کہ میاں بیوی اگرعدت کے اندر صلح کرنا چاہیں تو کر لیں لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر عدت گزر جانے کے بعد بھی آپس میں مل بیٹھنے پر رضامند ہوں تو تجدید نکاح سے یہ صورت ممکن ہے۔
یہ تو ہے سنّت طریقہ کار -
لیکن ایک(بدعتی ) طریقہ جو آج کل بھی کافی معروف ہے وہ ہے ایک ہی بار تین طلاقیں دینا -یعنی کوئی کہے کہ میں نے تجھے طلاق دی ،طلاق دی ،طلاق دی -
قارئین ! یہ طریقہ خلاف سنّت ہے - یعنی بدعت ہے -اگرچہ بعض فرقوں کے مطابق اس صورت میں بھی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ مگر سنت کی رو سے یہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔
(١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابو بکر (رض) کے زمانہ میں اور حضرت عمر (رض) کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک یک بارگی تین طلاق کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا۔ پھر عمر نے کہا : لوگوں نے ایک ایسے کام میں جلدی کرنا شروع کردیا جس میں ان کے لیے مہلت اور نرمی تھی تو اب ہم کیوں نہ ان پر تین طلاقیں ہی نافذ کردیں۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ایسا قانون نافذ کردیا۔ (مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث) 
(٢) ابو الصہباء نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا : کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اور حضرت ابو بکر صدیق (رض) کی خلافت میں اور حضرت عمر (رض) کی خلافت میں بھی تین سال تک تین طلاقوں کو ایک بنا دیا جاتا تھا ؟ تو حضرت عباس نے فرمایا۔ ہاں۔'' (بحوالہ، ایضاً) 
(٣) ابو الصہباء نے حضرت عباس سے کہا : ایک مسئلہ تو بتلائیے کہ رسول اور حضرت ابو بکر صدیق (رض) کے زمانہ میں تین طلاقیں ایک ہی شمار نہ ہوتی تھیں؟ حضرت ابن عباس نے جواب دیا، ہاں ایسا ہی تھا۔ پھر جب حضرت عمر (رض) کا زمانہ آیا تو اکٹھی تین طلاق دینے کا رواج عام ہوگیا تو حضرت عمر (رض) نے ان پر تین ہی نافذ کردیں۔ (حوالہ ایضاً) 
مندرجہ بالا تین احادیث اگرچہ الگ الگ ہیں۔ مگر مضمون تقریباً ایک ہی جیسا ہے اور ان احادیث سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے۔
دور نبوی، دور صدیقی اور دور فاروقی کے ابتدائی دو تین سالوں تک لوگ یکبارگی تین طلاق دینے کی بدعات میں مبتلا تھے اور یہی عادت دور جاہلیت سے متواتر چلی آ رہی تھی جو دور نبوی میں بھی کلیتہً ختم نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ
"رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی آدمی سے متعلق یہ خبر دی گئی کہ اس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ہی وقت میں دے ڈالی ہیں۔ یہ بات سن کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوگئے اور غصہ میں فرمانے لگے کہ کیا کتاب اللہ سے کھیل ہو رہا ہے۔ حالانکہ میں ابھی تم لوگوں کے درمیان موجود ہوں۔ یہ بات سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس کو قتل کر ڈالوں؟"
( سنن نسائی كتاب الطلاق بَابُ: الثَّلاَثِ الْمَجْمُوعَةِ وَمَا فِيهِ مِنَ التَّغْلِيظِ) ​
مگر آج المیہ یہ ہے کہ مقلد حضرات ہوں یا بقیہ فرقے کوئی بھی اکٹھی تین طلاق دینے کو جرم سمجھتا ہی نہیں۔
جہالت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عوام تو درکنار، خواص بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جدائی کے لیے تین طلاق دینا ضروری ہیں۔ حالانکہ طلاق کی بہترین اور مسنون صورت یہی ہے کہ حالت طہر میں صرف ایک ہی طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے۔ تاکہ عدت گزر جانے کے بعد بھی اگر دونوں مل بیٹھنا چاہیں اور الله کی مقرر کردہ حدود کو قائم رکھ سکیں تو تجدید نکاح سے مسئلہ حل ہوجائے۔ 
اگر معاملہ ایسا ہو کہ پہلی طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع کر لیں یا پھر عدت کے بعد تجدید نکاح سے وہ دوبارہ مل جائیں ، لیکن پھر کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ حالات کشیدہ ہو جائیں اور مرد دوسری مرتبہ طلاق دے دے ،تو بھی پہلے طریقہ کی طرح دوبارہ وہ مل سکتے ہیں 
لیکن اگر پھر سے اختلاف ہو جائے اور مرد تیسری دفعہ طلاق دے دے تو تیسری طلاق کے بعد ان کے آئندہ ملاپ کی(حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ)(البقرہ -230)کے علاوہ کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ

پھراگر وہ طلاق دے اسے (تیسری بار)تو وہ حلال نہیں اس کے لیے اس کے بعد یہاں تک کہ وہ نکاح کرے کسی اور سے اس کے سوا پھراگروہ (دوسرا خاوند) اسے طلاق دے دے توکوئی گناہ نہیں ان دونوں پر کہ وہ رجوع کرلیں اگردونوں یہ خیال کریں کہ وہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کی حدیں اوریہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں وہ کھول کھول کربیان کرتاہے ا نہیں اس قوم کے لیے (جو) علم رکھتے ہیںَ 
(البقرہ -230)

قارئین ! سورة البقرہ آیت ٢٣٠ کے مطابق تیسری طلاق کے بعد ان کے آئندہ ملاپ کی(حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ)(البقرہ -230)کے علاوہ کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔
خاوند نے جب تیسری بار طلاق دے دی۔ تو اب وہ اس کے لیے حرام ہوگئی۔ عورت پر عدت تو ہوگی، مگر مرد اس عدت میں رجوع نہیں کرسکتا۔ اب ان دونوں کے ملاپ کی صرف یہ صورت ہے کہ عدت گزرنے کے بعد عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے- نکاح مستقل رہنے کی نیت سے ہو گا ، تمام نکاح کے کام سر انجام دیے جائیں گے ، یعنی ولیمہ بھی ہو گا اور نکاح کا اعلان بھی کیا جائے گا -لیکن پھر کسی وقت وہ مرد از خود اس عورت کو طلاق دے دے یا وہ مرد فوت ہوجائے تو پھر عدت گزرنے کے بعد یہ عورت پہلے مرد سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔
یہاں حلالہ کے نام پر زنا جو ہوتا ہے اس کی مختصراً وضاحت کر دی جائے -
اگر کوئی سابقہ شوہر کے لئے حلال ہونے کے لئے محض ایک یا دو راتوں کے معاہدے کے تحت نکاح کرے تو ایسا نکاح ہر گز نہ ہو گا - 
بلکہ اگر وہ ہمبستری کریں گے تو وہ زنا ہو گا -
اور وہ عورت پہلے شوہر کے لئے ہر گز حلال نہ ہو گی -
نکاح کے وقت عورت کو مستقل نکاح میں رکھنے کی نیت ہو -
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ

بشرطیکہ اس سے تمہارا مقصد نکاح میں لانا ہو، نہ کہ شہوت رانی کرنے کے لیے۔ 
(النساء -24)

قارئین کرام ! لہذا یہ بات واضح ہوئی کہ جب بھی کسی عورت سے نکاح کیا جائے تو نیت یہ ہو کہ اس عورت کو نکاح میں مستقل رکھنا ہے -نہ کہ یہ نیت ہو کہ ایک رات یا دو رات رکھ کر شہوت رانی کر کے پھر طلاق دے دوں گا -
کسی فرقے نے نکاح متعہ کے نام پر زنا کا بازار گرم کر رکھا ہے اور بالکل اسی طرح کچھ باطل فرقوں نے حلالہ کے نام پر زنا کا بازار گرم کر رکھا ہے -جس میں عورت کو پہلے شخص کے لیے حلال کرنے کے لئے کسی دوسرے آدمی کے ساتھ ایک دو راتوں رات کے لئے نکاح کر دیا جاتا ہے -
یعنی 
تیسری طلاق دے چکنے کے بعد اگر کوئی شخص پھر اسی عورت سے نکاح کرنا چاہے تو اس عورت کا کسی دوسرے شخص سے نکاح کروایا جاتا ہے اور پھر ایک یا دو دنوں کے بعد وہ اسے طلاق دے دیتا ہے تو بقول فرقوں کے یہ سابقہ شوہر کے لئے حلال ہو جاتی ہے اور اس طریقہ کو حلالہ کہا جاتا ہے۔ حلالہ کے نام سے ہمارے ہاں جو حرام پیشہ مروّج ہے کہ ایک معاہدے کے تحت عورت کا نکاح کسی مرد سے کیا جاتا ہے کہ تم پھر اسے طلاق دے دینا ‘ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی ہے۔
لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ 
رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حلالہ کرنے اور کروانے والے پر لعنت بھیجی ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے
(جامع ترمذیكتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم باب مَا جَاءَ فِي الْمُحِلِّ وَالْمُحَلَّلِ لَهُ )

باطل فرقے لعنت تو اپنے اوپر ڈلوا رہے ہیں لیکن اس بےحیائی ، فحاشی کے کام کو بند نہیں کر رہے -
انہیں شیطان نے ایسا پھنسا دیا ہے تقلید کے جال میں کہ اب یہ گمراہی میں بہت دور نکل چکے ہیں -
لیکن انہیں فرقوں میں سے جنہوں نے الله سے ہدایت طلب کی اور کوشش بھی کی ، تو ما شاء الله وہ ان فرقوں کو چھوڑ کر الگ ہو گئے ان سے -
اور الله تعالیٰ کا بھی یہی حکم ہے کہ فرقوں سے مسلم کا کوئی تعلق نہیں -

الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ 

جن لوگوں نے اپنے دین کے ٹکڑے کردیے اور وہ گروہوں میں تقسیم ہوگئے تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ‘ پھر وہ انہیں جتلا دے گا جو کچھ کہ وہ کرتے رہے تھے
(الانعام -159)

قارئین کرام ! نیز آج کل جو یہ دستور چل نکلا ہے کہ پہلے بیوی کو میکے بھیج دیتے ہیں بعد میں کسی وقت بذریعہ چٹھی تین طلاق تحریری لکھ کر ڈاک میں بھیج دیتے ہیں یہ نہایت ہی غلط طریقہ ہے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں۔
١۔ ایک وقت کی تین طلاق کار معصیت گناہ ہے۔ بدعت ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا دلائل سے واضح ہے۔
٢۔ دوران عدت مطلقہ کا نان نفقہ اور رہائش خاوند کے ذمہ ہوتی ہے اور مطلقہ اس کی بیوی ہی ہوتی ہے جس سے وہ رجوع کا حق رکھتا ہے جسے وہ ضائع کردیتا ہے۔ اس دوران وہ نان نفقہ کے اس بار سے بھی محفوظ رہنا چاہتا ہے جو شرعاً 
اس پر لازم ہے۔
٣۔ عدت کے دوران عورت کو اپنے پاس رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ شاید حالات میں ساز گاری پیدا ہوجائے۔ منشائے الٰہی یہ ہے کہ رشتہ ازدواج میں پائیداری بدستور قائم رہے۔ اگرچہ ناگزیر حالات میں طلاق کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ تاہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :'' اَبْغَضُ الْحَلاَلِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلاَقُ'' (ابو داؤد، کتاب الطلاق) یعنی تمام حلال چیزوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔
٤۔ عدت گزر جانے کے بعد عورت کی رخصتی کے وقت دو عادل گواہوں کی موجودگی بھی ضروری ہے (الطلاق کی آیت ٢ ملاحضہ ہو ) اور بذریعہ خط طلاقیں بھیج دینے سے اس حکم پر بھی عمل نہیں ہو سکتا۔
قارئین ! عدت ختم ہونے کے قریب ہو اور رجوع نہ کیا گیا ہو تو رخصتی کے وقت عورت کو اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دے دلا کر رخصت کیا جائے، خالی ہاتھ یا دھکے دے کر گھر سے ہرگز نہ نکالا جائے۔
یعنی حق مہر بھی اور اس کے علاوہ دوسری اشیاء (مثلاً زیور کپڑے وغیرہ) جو خاوند اپنی بیوی کو بطور ہدیہ دے چکا ہو۔ کسی کو ہدیہ دے کر واپس لینا عام حالات میں بھی جائز نہیں ، ہدیہ واپس لینے والے کے اس فعل کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کتے سے تشبیہ دی ہے جو قے کر کے پھر اسے چاٹ لے۔ (بخاری، کتاب الھبۃ، باب ھبہ الرجل لامراتہ) طلاق دینے والے شوہر کے لیے یہ اور بھی شرمناک بات ہے کہ کسی زمانہ میں اس نے جو اپنی بیوی کو ہدیہ دیا تھا۔ رخصت کرتے وقت بجائے مزید کچھ دینے کے اس سے پہلے تحائف کی بھی واپسی کا مطالبہ کرے۔اسے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دے دلا کر رخصت کیا جائے، خالی ہاتھ یا دھکے دے کر گھر سے ہرگز نہ نکالا جائے۔
اور یہ بات بھی یاد رکھیے کہ :
عدت کے اندر اگر کوئی میاں بیوی رجوع کر لیں تو یہ کام بھی دو عادل گواہوں کی موجودگی میں ہو گا -

الله تعالیٰ فرماتا ہے ؛
فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْهِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ وَاَقِيْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ ۭ ذٰلِكُمْ يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ڛ وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا

پھر جب وہ اپنی (عدت کی) میعاد کو پہنچنے لگیں تو اب ان کو یا تو (اپنے نکاح میں) روک رکھو معروف طریقے سے ‘ یا جدا کردو معروف طریقے سے “ ” اور اپنے میں سے دو معتبر اشخاص کو گواہ بنا لو “ ’ اور گواہی قائم کرو اللہ کے لیے۔ ‘ یہ ہے جس کی نصیحت کی جا رہی ہے ہراُس شخص کو کہ جو ایمان رکھتا ہو اللہ پر اور یومِ آخر پر۔ اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا ‘ اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا۔
(الطلاق -2)

یعنی ایک یادو طلاق دینے کی صورت میں عدت پوری ہوجانے سے پہلے مرد کو حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر تو وہ رجوع کرنا چاہتا ہے تو شریعت کے طے کردہ طریقے سے رجوع کرلے اور اگر اس نے طلاق ہی کا فیصلہ کرلیا ہے تو پھر بھلے طریقے سے عورت کو گھر سے رخصت کر دے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اسے ستانے کی غرض سے روکے رکھے ۔
{ وَّاَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ} ” اور اپنے میں سے دو معتبر اشخاص کو گواہ بنا لو “
یعنی اگر کوئی طلاق کے بعد رجوع کرنا چاہے تو وہ اپنے لوگوں میں سے کم از کم دو معتبر اشخاص کی موجودگی میں ایسا کرے۔
اور اگا رخصت کرنا ہے تب بھی دو عادل گواہوں کی موجودگی میں اچھے طریقے سے رخصت کرے -
{ وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ} ” اور گواہی قائم کرو اللہ کے لیے۔ “
{ ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ} ” یہ ہے جس کی نصیحت کی جا رہی ہے ہراُس شخص کو کہ جو ایمان رکھتا ہو اللہ پر اور یومِ آخر پر۔ “

الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ! اور ہمیں صراط مستقیم پر چلائے !
اور ہمیں ہر قسم کے فتنے سے محفوظ فرمائے !
اور اپنے نیک مقرب بندوں میں شامل کر کے جنّت الفردوس میں داخل فرمائے !
آمین یا رب العالمین 
والحمد لله رب العالمین

Sunday, September 9, 2018

1016-حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر رافضی شیعوں سے تعزیت


سوال: ہمارے کچھ سنی بھائی حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر شیعہ حضرات سے تعزیت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟

الحمد للہ:

اول:

اہل سنت و الجماعت کا حسین رضی اللہ عنہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے  غیروں کی بہ نسبت زیادہ تعلق ہے، کیونکہ اہل سنت و الجماعت ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل، آپ کی ازواج مطہرات اور صحابہ کرام کا احترام کرتے ہیں اور اس کیلیے وہی طریقہ اپناتے ہیں جو اللہ تعالی نے بتلایا ہے اس میں کسی قسم کا غلو یا جفا داخل نہیں کرتے، اس میں کمی بیشی نہیں کرتے، رافضی شیعوں کے پاس ایسی کوئی  چیز  نہیں ہے جس کی وجہ سے حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کا اہل سنت سے زیادہ تعلق بنے، یا ان کے ساتھ ان کا تعلق واضح ہو کہ ان سے شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ پر ان سے تعزیت کی جائے، بلکہ رافضی شیعہ  اس مسئلے میں غلو، بدعات اور اتنی گمراہی میں ڈوبے ہوئے کہ ان سے اظہار لا تعلقی کرنا واجب ہے، انہیں ان کی حرکتوں سے روکنا چاہیے۔

رافضی شیعوں کے نظریات و عقائد کے بارے میں تفصیل سے جاننے کیلیے آپ سوال نمبر: (1015) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

دس محرم کو رافضی شیعوں کی جانب سے  سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی یاد میں منعقد کی جانے والے ماتمی جلوس، مجالس عزاء، مصنوعی رونے دھونے  کی تقاریب اور نوحہ گری وغیرہ سب کچھ بدعات ہیں صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ کرام رحمہم اللہ جمیعاً میں سے کسی نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا۔

کسی بھی نبی یا شہید کی شہادت  پر سالانہ برسی منانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار نہیں تھا، حالانکہ سید الشہدا ء سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی شہید ہوئے۔

سلف صالحین میں سے کوئی بھی کسی کی وفات پر سالانہ برسی یا تقریب منعقد نہیں کرتا تھا، کسی نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی امتی کی کبھی برسی  نہیں منائی۔

چنانچہ اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو  وہ بدعت کا ارتکاب کر رہا ہے، وہ سلف صالحین اور سنت نبوی سے متصادم عمل میں مبتلا ہے۔

اس بارے میں مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (1015) کا جواب ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

رافضی شیعہ گمراہی میں کچھ زیادہ ہی بڑھ چکے ہیں انہوں نے دس محرم کے دن کیلیے بے بنیاد اور بے دلیل انتہائی گھٹیا بدعات  ایجاد کی ہیں جن میں وہ سینہ کوبی، ماتم ، نوحہ گری، زنجیر زنی، تلوار زنی، سر زخمی کرنا ، خون نکالنا اور دیگر عجیب و غریب حرکتیں کرتے ہیں۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (315) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

مذکورہ بالا تفصیلات کی بنا پر:

شہادت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ  پر کسی بھی مسلمان کو شیعہ رافضیوں کیلیے تعزیتی پیغام نہیں بھیجنا چاہیے؛ کیونکہ یہ عمل بدعت اور سنت سے متصادم ہے، نیز ایسا کرنے سے رافضیوں کے باطل نظریات کا اقرار بھی ہے، اسی طرح انہیں یہ بھی کہنا درست نہیں ہے کہ اللہ تعالی تمہیں اجر دے؛ کیونکہ وہ بدعت پر عمل کرنے کی وجہ سے اجر نہیں بلکہ عذاب کے مستحق ہیں۔

واللہ اعلم

1015-عاشوراء كے موقع پر كى جانے والى بدعات اور گمراہياں


س-ميں دبى ميں رہائش پذير ہوں اور ہمارے گرد و پيش بہت سارے شيعہ رہتے ہيں وہ ہميشہ دعوى كرتے ہيں كہ نو اور دس محرم كو ہم جو كچھ كرتے ہيں وہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ محبت كى دليل ہے، اور ايسے عمل كرنے ميں كوئى حرج نہيں يہ بالكل ايسے ہى ہے جيسے يعقوب عليہ السلام نے كہا تھا:
{ہائے يوسف! ان كى آنكھيں رنج و غم كى وجہ سے سفيد ہو چكى تھيں، اور وہ غم كو دبائے ہوئے تھے، بيٹوں نے كہا واللہ ! آپ ہميشہ يوسف كى ياد ہى ميں لگے رہيں گے يہاں تك كہ گھل جائيں يا ختم ہى ہو جائيں، انہوں نے كہا ميں تو اپنى پريشانيوں اور رنج كى فرياد اللہ ہى سے كر رہا ہوں، مجھے كى طرف سے وہ باتيں معلوم ہيں جو تم نہيں جانتے }.
برائے مہربانى آپ يہ بتائيں كہ سينہ كوبى اور ماتم كرنا جائز ہے يا نہيں ؟

الحمد للہ:

عاشوراء ميں شيعہ حضرات جو ماتم و سينہ كوبى كرتے ہيں، اور اپنے آپ كو زنجيروں اور چھرياں وغيرہ مارتے ہيں، اور تلواروں كے ساتھ اپنے سر زخمى كرتے اور خون نكالتے ہيں دين اسلام ميں اس كى كوئى اصل نہيں ملتى، بلكہ يہ اسلامى تعليمات كے منافى ہے.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے سے منع فرمايا ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كے ليے ايسى كوئى چيز مشروع نہيں فرمائى اور نہ ہى اس ماتم كے قريب بھى كچھ مشروع كيا ہے كہ اگر كوئى عظيم مقام و رتبہ والا شخص فوت ہو جائى يا كوئى دوسرى شہيد ہو تو اس كے ماتم ميں ايسى خرافات كى جائيں.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں كئى ايك كبار صحابہ كرام كى شہادت ہوئى اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم ان كى موت پر غمزدہ بھى ہوئے مثلا حمزہ بن عبد المطلب اور زيد بن حارثہ اور جعفر بن ابى طالب اور عبد اللہ بن رواحہ ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كوئى عمل نہيں كيا جو شيعہ حضرات كرتے ہيں، اور اگر يہ كام خير و بھلائى ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس ميں ہم سے سبقت لے جاتے.

اور پھر يعقوب عليہ السلام نے سينہ كوبى نہيں كى، اور نہ ہى اپنے چہرے كو زخمى كيا، اور نہ خون بہايا، اور نہ ہى اس دن كو جس ميں يوسف عليہ السلام گم ہوئے تھے تہوار بنايا اور نہ ہى اس روز كو ماتم كے ليے مختص كيا، بلكہ وہ تو اپنے پيارے اور عزيز بيٹے كو ياد كرتے اور اس كى دورى سے پريشان و غمزدہ ہوتے تھے، اور يہ ايسى چيز ہے جس كا كوئى بھى انكار نہيں كر سكتا اور كوئى بھى روك نہيں سكتا، بلكہ ممانعت و برائى تو اس ميں ہے جو جاہليت كے امور بطور وراثت لے كر اپنائے جائيں جن سے اسلام نے منع كر ديا ہو.

بخارى و مسلم ميں عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى رخسار پيٹے اور گريبان چاك كيا اور جاہليت كى آوازيں لگائيں وہ ہم ميں سے نہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1294 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 103 ).

چنانچہ يوم عاشوراء كے دن شيعہ حضرات جو غلط كام كرتے ہيں اس كى دين اسلام ميں كوئى دليل نہيں ملتى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ ميں سے كسى ايك كو بھى اس كى تعليم نہيں دى، اور نہ ہى كسى صحابى يا كسى دوسرے كى موت پر ايسے اعمال كيے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موت پر صحابہ كرام نے بھى ايسا نہيں حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موت كى مصيبت تو حسين رضى اللہ تعالى كى موت سے بھى زيادہ ہے.

حافظ ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہر مسلمان كو چاہيے كہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے قتل ہونے پر غمزدہ ہونا چاہيے كيونكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ مسلمانوں كے سردار اور علماء صحابہ كرام ميں سے تھے اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے نواسے اور آپ كى اس بيٹى كى اولاد ميں سے جو سب بيٹيوں سے افضل تھى، اور پھر حسين رضى اللہ تعالى عنہ عابد و زاہد اور سخى و شجاعت و بہادرى كا وصف ركھتے تھے.

ليكن شيعہ حضرات جو كچھ كرتے ہيں اور جزع و فزع اور غم كا اظہار جس ميں اكثر طور پر تصنع و بناوٹ اور رياء ہوتى ہے ان كا يہ عمل اچھا نہيں، حالانكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے والد على رضى اللہ تعالى عنہ تو حسين سے افضل تھے انہيں شہيد كيا گيا ليكن وہ اس كے قتل ہونے پر ماتم نہيں كرتے جس طرح وہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے قتل ہونے والے دن ماتم كرتے ہيں.

كيونكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے والد على رضى اللہ تعالى عنہ كو چاليس ہجرى سترہ رمضان المبارك جمعہ كے روز اس وقت قتل كيا گيا جب وہ نماز فجر كى ادائيگى كے ليے جا رہے تھے، اور اسى طرح اہل سنت كے ہاں عثمان رضى اللہ تعالى عنہ على رضى اللہ تعالى عنہ سے افضل ہيں انہيں محاصرہ كر كے ان كے گھر ميں چھتيس ہجرى ماہ ذوالحجہ كے ايام تشريق ميں شہيد كيا گيا، اور انہيں رگ رگ كاٹ كر ذبح كيا گيا، ليكن لوگوں نے ان كے قتل كے دن كو ماتم نہيں بنايا.

اور اسى طرح عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ جو كہ عثمان اور على رضى اللہ تعالى عنہما سے افضل ہيں انہيں نماز فجر پڑھاتے ہوئے محراب ميں قرآن مجيد كى تلاوت كرتے ہوئے شہيد كيا گيا ليكن لوگوں نے ان كى موت كے دن كو ماتم كا دن نہيں بنايا.

اور اسى طرح ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ ان سے افضل تھے اور لوگوں نے ان كى موت كے دن كو ماتم والا دن نہيں بنايا، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو دنيا و آخرت ميں اولاد آدم كے سردار ہيں آپ كو بھى اسى طرح قبض كيا گيا اور فوت كيا گيا جس طرح پہلے انبياء كو فوت كيا گيا، ليكن كسى ايك نے بھى ان كى موت كو ماتم نہيں بنايا، اور وہ ان رافضى جاہلوں كى طرح كريں جس طرح وہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے قتل ہونے كے دن خرافات كرتے ہيں...

اس طرح كى مصيبتوں كے وقت سب سے بہتر وہى عمل ہے جو حسين رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے انہوں نے اپنے نانا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس كسى مسلمان كو بھى كوئى مصيبت پہنچى ہو اور وہ مصيبت ياد آئے چاہے وہ پرانى ہى ہو چكى ہو تو وہ نئے سرے سے دوبارہ انا للہ و انا اليہ راجعون پڑھے تو اللہ تعالى اسے اس مصيبت كے پہنچنے والے دن جتنا ہى اجر و ثواب عطا كرتا ہے "

اسے امام احمد اور ابن ماجہ نے روايت كيا ہے " انتہى

ديكھيں: البدايۃ والنھايۃ ( 8 / 221 ).

اور ايك مقام پر لكھتے ہيں:

" چوتھى صدى ہجرى كے آس پاس بنو بويہ كے دور حكومت ميں رافضى شيعہ حضرات اسراف كا شكار ہوئے اور بغداد وغيرہ ميں يوم عاشوراء كے موقع پر ڈھول پيٹے جاتے اور راستوں اور بازاروں ميں ريت وغيرہ پھيلا دى جاتى اور دكانوں پر ٹاٹ لٹكا ديے جاتے، اور لوگ غم و حزن كا اظہار كرتے اور روتے، اور ان ميں سے اكثر لوگ اس رات پانى نہيں پيتے تھے تا كہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى موافقت ہو؛ كيونكہ وہ پياسے قتل ہوئے تھے.

پھر عورتيں چہرے ننگے كر كے نكلتيں اور اپنے رخسار پيٹتيں اور سينہ كوبى كرتيں ہوئى بازاروں سے ننگے پاؤں گزرتيں اور اسكے علاوہ بھى كئى ايك قبيح قسم كى بدعات اور شنيع خواہشات اور اپنى جانب سے ايجاد كردہ تباہ كن اعمال كرتے، اور اس سے وہ حكومت بنو اميہ كو برا قرار ديتے كيونكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ ان كے دور حكومت ميں قتل ہوئے تھے.

ليكن اہل شام كے نواصب نے شيعہ و رافضيوں كے برعكس كام كيا، وہ يوم عاشوراء ميں دانے پكا كر تقسيم كرتے اور غسل كر كے خوشبو لگا كر بہترين قسم كا لباس زيب تن كرتے اور اس دن كو تہوار اور عيد بنا ليتے اور مختلف قسم كے كھانے تيار كر كے خوشى و سرور كا اظہار كرتے، ان كا مقصد رافضيوں كى مخالفت اور ان سے عناد ظاہر كرنا تھا " انتہى

ديكھيں: البدايۃ والنھايۃ ( 8 / 220 ).

جس طرح اس دن ماتم كرنا بدعت ہے اسى طرح اس دن خوشى و سرور ظاہر كرنا اور جشن منانا بھى بدعت ہے، اسى ليے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى شہادت كے سبب ميں شيطان نے لوگوں ميں دو قسم كى بدعات ايجاد كروائيں ايك تو يوم عاشوراء كے دن ماتم كرنا اور غم و حزن كا اظہار اور سينہ كوبى كرنا اور مرثيے پڑھنا... اور دوسرى بدعت خوشى و سرور كا اظہار كرنا...

ان لوگوں نے غم و حزن اور ماتم ايجاد كيا اور دوسروں نے اس كے مقابلہ ميں خوشى و سرور كى ايجاد كى اور اس طرح وہ يوم عاشوراء كو سرمہ ڈالنااور غسل كرنا اور اہل و عيال كو زيادہ كھلانا پلانا اور عادت سے ہٹ كر انواع و اقسام كے كھانا تياركرنا جيسى بدعت ايجاد كر لى، اور ہر بدعت گمراہى ہے آئمہ اربعہ وغيرہ دوسرے مسلمان علماء نے نہ تو اسے اور نہ ہى اس كو مستحب قرار ديا ہے " انتہى

ماخوذ از: منھاج السنۃ ( 4 / 554 ) مختصرا

يہاں اس پر متنبہ رہنا چاہيے كہ ان غلط قسم كے اعمال كى پشت پناہى دشمنان اسلام كرتے ہيں تا كہ وہ اپنے گندے مقاصد تك پہنچ سكيں اور اسلام اور مسلمانوں كى صورت كو مسخ كركے دنيا ميں پيش كريں، اسى سلسلہ ميں موسى الموسوى اپنى كتاب " الشيعۃ و التصحيح " ميں لكھتے ہيں:

" ليكن اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى شہادت كے سوگ ميں دس محرم كے دن سينہ كوبى كرنا اور سروں پر تلواريں مار كر سر زخمى كرنا اور زنجير زنى كرنا ہندوستان سے انگريز دور حكومت كے وقت ايران اور عراق ميں داخل ہوا، اور انگريزوں نے شيعہ كى جہالت اور امام حسين رضى اللہ تعالى عنہ سے محبت كو موقع غنيمت جانتے ہوئے انہيں سروں پر بيرنگ مارنے كى تعليم دى، حتى كہ ابھى قريب تك طہران اور بغداد ميں برطانوى سفارت خانے ان حسينى قافلوں كى مالى مدد كيا كرتے تھے جو اس دن سڑكوں پر نكالنے جاتے، اس كے پيچھے غرض صرف سياسى اور انگريزى استعمار و غلبہ تھا تا كہ وہ اس كو بڑھا كر اس كى آبيارى كريں، اور اس سے بھى بڑھ كر يہ كہ وہ اپنے معاشرے اور آزاد ميڈيا كے سامنے ايك معقول بہانا مہيا كرنا چاہتے تھے جو برطانيہ كا ہندوستان اور دوسرے اسلامى ملكوں ميں قبضہ كى مخالفت كرتے تھے.

اور وہ يہ ظاہر كرنا چاہتے تھے كہ ان ممالك ميں بسنے والے وحشى ہيں جو تربيت كے محتاج ہيں كہ انہيں جہالت اور وحشيوں كى وادى سے نكال كر ترقى يافتہ معاشرہ بنايا جائے، اس طرح يورپى اور انگريزي روزناموں اور ميگزينوں ميں تصاوير شائع كى جاتيں كہ ہزاروں افراد كے قافلے عاشوراء كے موقع پر زنجير زنى سے ماتم كر كے بازاروں ميں گھوم رہے ہيں اور سروں پر تلوار اور بيرنگ سے خون نكالا گيا ہے.

اس طرح يہ استعمارى تھنك ٹينك ان ممالك ميں قبضہ اور استعمار كو ايك انسانى واجب بنا كر پيش كرتے، اور كہتے كہ ان ممالك كى يہ ثقافت ہے اس ليے اسے ترقى كى ضرورت ہے اور كہا جاتا ہے كہ انگريز قبضہ كے وقت عراق كے وزير اعظم " ياسين ہاشمى " نے جب لندن كا دورہ كيا اور انگريزوں سے وائسرائے كے نظام كو ختم كرنے كا كہا تو انگريز كہنا لگا: ہم عراق ميں عراقى لوگوں كى مدد كے ليے ہيں تا كہ وہ سعادت حاصل كريں اور بربريت سے نكلنے كى نعمت حاصل كر سكيں تو اس بات سے " ياسين ہاشمى " غصہ ميں آيا اور ناراض ہو كر مذاكرات كے كمرہ سے نكل آيا، ليكن انگريز نے بڑى چالاكى دكھاتے ہوئے اس سے معذرت كى اور بڑے احترام سے اسے عراق كے متعلق ايك فلم ديكھنے كى درخواست كى جس ميں حسينى قافلے نجف و كربلاء اور كاظميہ كى سڑكوں پر سينہ كوبى اور زنجير زنى كرتے ہوئے دكھايا گيا تھا، گويا كہ انگريز اسے يہ كہنا چاہتے تھے: كيا يہ قوم اتنى ہى گرى ہوئى ہے جس ميں ذرا بھى ترقى كى رمق نہيں جو اپنے ساتھ يہ سلوك كر رہى ہے ؟! " انتہى

واللہ اعلم

1014-اس برس ہم عاشوراء کیسےمعلوم کریں ؟


س-اس برس ہم عاشوراءکاروزہ کیسےرکھیں؟ ہمیں ابھی تک یہ علم نہیں کہ مہینہ کب شروع ہوااورکیا ذوالحجہ انتیس کاتھایاتیس یوم کاتوہم عاشوارء کی کیسےتحدیدکریں اور روزہ رکھیں ؟

الحمد للہ :

اگرہمیں یہ نہ پتہ چلےکہ ذوالحجہ تام ( یعنی۔30۔دن ) کاتھایاکہ ناقص ( یعنی ۔29۔دن) کاتھااورنہ ہی ہمیں اس کےمتعلق کوئی بتائےکہ محرم کب شروع ہواتواصل کےمطابق چلیں گےیعنی مہینےکوتیس یوم کامکمل کرینگے۔ ذوالحجہ کےتیس یوم کا اعتبار کیاجائےگااوراسی بناپرہم عاشوراءکوشمارکرینگے ۔

اوراگرمسلمان یہ احتیاط چاہتا ہےکہ عاشوراءکا روزہ قطعی طورپرصحیح ہوتووہ دودن کا مسلسل روزہ رکھے ۔اسےچاہئےکہ وہ شمارکرے کہ ، اگرذوالحجہ انتیس یوم کاہو توعاشوراءکب ہوگااوراگرذوالحجہ تیس کاہوتو پھرعاشوراء کب ہوگاتوان دونوں دنوں میں وہ روزے رکھ لےتواس طرح وہ عاشوراءکویقینی اورقطعی طور پر پالےگا ۔

تواس حالت میں یاتواس نےنواوردس محرم کاروزہ رکھایاپھردس اورگیارہ کاتودونوں ہی ٹھیک ہیں اوراگروہ نومحرم کاروزہ رکھنےمیں بھی احتیاط چاہتاہے توہم اسےیہ کہیں گےکہ دودن وہ جن کاذکراوپرکیاگیاہےاورایک دن اس سے پہلےروزہ رکھ لےاس طرح اس نےنو، دس اورگیارہ محرم کاروزہ یاپھرآٹھ ، نواوردس کاروزہ رکھا ۔ان دونوں حالتوں میں تاکیدی طورپرنواوردس محرم کاروزہ رکھاجائےگا ۔

اوراگرکوئي یہ کہےکہ میں اپنےخاص مسائل ، کام کاج اورذاتی ( مصروفیات ) کی بناپرصرف ایک روزہ ہی رکھ سکتاہوں ،توکونسادن افضل جس میں روزہ رکھوں توہم اسے یہ کہیں گے :

ذوالحجہ کوتیس یوم مکمل کریں پھراس کےبعددس دن شمارکرکےروزہ رکھ لو۔

یہ مضمون میں نےاپنےشیخ اوراستادعلامہ عبدالعزیزبن بازرحمہ اللہ تعالی سےجب اس کےمتعلق پوچھاگیاتوسنا ۔

اوراگرکسی ثقہ مسلمان کی طرف سےہمیں محرم کاچانددیکھ کرتعیین کرنےکی خبرملےتوہم اس پرعمل کریں گےاورمحرم میں روزہ رکھناعمومی طورپرسنت ہےجیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :

( رمضان کےبعدسب سےافضل روزے اللہ تعالی کےمہینہ محرم کےروزے ہیں )

صحیح مسلم حدیث نمبر ۔(1163)

واللہ اعلم

٢٣٥- کیا مرغ یا انڈے کی قربانی جائز ہے.؟

✍🏻مجاہدالاسلام عظیم آبادی سوال-مدعیان عمل بالحدیث کا ایک گروہ مرغ کی قربانی کو مشروع اورصحابہ کرام کا معمول بہ قرار دیتا ہے۔اور ان میں سے ...