Monday, January 21, 2019

حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(سنت، علمائے فقہ کے نزدیک)

سنت، علمائے فقہ کے نزدیک

سنت کاعام معنی ان کے ہاں یہ ہے:
مَا یُثَابُ فَاعِلُہُ وَلاَ یُعَاقَبُ تَارِکُہُ یا مَا دَلَّ عَلَیْہِ الشَّرْعُ مِنْ غَیْرِ افْتِرَاضٍ وَلاَ وُجُوْبٍ۔جس کا کرنے والا ثواب دیا جائے گا اور ترک کرنے والا کوئی سزا نہ پائے گا یا ایسی چیز جس کے بارے میں شریعت نے فرض یا واجب ہونے کی کوئی دلیل نہ دی ہو۔یا
مَا ثَبَتَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ مِنَ الْحُکْمِ، وَلَمْ یَکُنْ فَرْضاً أَوْ وَاجِباً۔ ایسا حکم جو نبی کریم ﷺسے ثابت ہومگر وہ فرض یا واجب نہ ہو۔
٭…اسے فقہی سنت بھی کہا جاتا ہے۔ فقیہ دو معاملات میں اس سنت سے سروکار رکھتا ہے۔
۱۔شرعی حیثیت بیان کرنا: 
اللہ تعالیٰ نے مکلف کو جوحکم دیا ہے فقیہ اس سنت کی روشنی میں اس کی شرعی حیثیت بیان کرتا ہے ۔ اس طرح فقیہ، رسول اکرم ﷺ کی شخصیت میں ان چیزوں کو تلاش کرتا ہے جو آپ ﷺ نے بطور تبلیغ کیں اور ان کی وضاحت یوں کرتا ہے کہ آیا شریعت میں وہ واجب ہیں، مندوب ہیں یا مباح، یا مکروہ وحرام۔ اس لئے کتب فقہ میں یوں لکھا ہوتا ہے : ہٰذِہِ مَسْأَلَۃٌ وَاجِبَۃٌ بِالْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ یہ ایسا مسئلہ ہے جسے کتاب وسنت نے واجب کہا ہے۔یا دَلَّتِ السُّنَّۃُ عَلَی إِبَاحَۃِ ہٰذَا الأَمْرِ۔ اس کے مباح ہونے کی دلیل، سنت ہے۔وغیرہ۔ 

۲۔ شرعی حکم تلاش کرنا:
دوسرا یہ ہے کہ فقیہ، انسانوں کے افعال کے بارے میں سنت سے شرعی حکم تلاش کرتاہے۔بطور خاص جن میں مطالبہ ہو جسے وہ واجب ومندوب بھی کہتے ہیں تاکہ ان کے مابین وقت ضرورت تمیز ہوسکے۔اس صورت میں سنت سے مراد پانچ احکام تکلیفی میں سے کوئی ایک ہے۔نہ کہ ان احکام کا مصدر۔ جیسے آپ ﷺ کا ارشاد ہے: 
إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ فَرَضَ عَلَیْکُمْ صِیَامَ رَمَضَانَ وَسَنَنْتُ لَکُمْ قِیَامَہُ۔اللہ نے تم پر رمضان کے روزے فرض کئے اور میں نے تمہارے لئے اس کا قیام مسنون قرار دیا۔(مسند احمد ۱/۱۹۱)۔

٭…اسی طرح فقہی سنت کے دو مفہوم اور بھی ہیں:
۱۔ سنت وہ ہے جو رسول اکرم ﷺ سے ثابت تو ہو مگر وہ فرض وواجب نہ ہو۔اور آپ ﷺ نے اس پر مواظبت فرمائی ہو۔مثلاً: بعد از نماز مغرب دو رکعت پڑھنا سنت ہے۔جو اس پر عمل کرے وہ ثواب پائے اور جو اسے ترک کردے وہ سزا کا مستحق نہیں ۔ اس لئے فقہاء کرام سنت کی دو اقسام بتاتے ہیں: سنت مؤکدہ وسنت غیر مؤکدہ۔

۲۔ اسی طرح مسلم فقہاء مطلوب عمل یاRecommended Actکو بھی سنت کہتے ہیں اس کا تعلق مالی ، بدنی، اور قولی عبادات سے ہے۔ یہ عبادات طریقہ وہیئت سمیت صرف رسول اللہ ﷺ کی متعین کردہ ہوں۔مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰکُمْ }تم اس طرح اسے یاد کرو جیسے اس نے تمہاری رہنمائی کی ہے۔ یہ ذکر کیا ہے؟ کیسے اور کب کرنا ہے؟ اس کی رہنمائی ہمیں صرف رسول اکرم ﷺ کی ذات گرامی ہی سے ملتی ہے۔ اس لئے کہ ذکر یا عبادات کا تعین کرنا صرف رسول ﷺ کا کام ہے کسی اور کا نہیں ۔ نیز ذکر بھی صرف وہ کرنا ہے اور اس طریقے سے کرنا ہے جیسا اور جس طرح آپ ﷺ نے کیا۔اس لئے امام سفیانؒ ثوری فرمایا کرتے تھے: سنت دو ہوا کرتی ہیں۔

أ۔وہ سنت جسے چھوڑنا حرام نہ ہوگا۔ یہ فرض وواجب کی طرح ایک عمل ہے۔

ب۔ اس کا چھوڑنا کفر ہوگا۔ یہ اسلامی عقیدہ ہے جس کی وضاحت گذر چکی ہے۔

… شرعی اعمال کے مراتب اور درجات کو فقہی اصطلاح میں احکام خمسہ کہتے ہیں۔جو فرض، سنت، حرام، مکروہ اور مباح ہیں۔فقہی اعتبار سے سنت کا مقام فرض کے بعد ہے یعنی وہ شرعی اعمال جو غیر فرض ہیں علم فقہ میں سنت کہلاتے ہیں۔یہ یاد رکھئے محدثین کرام، فرض ومسنون، حرام ، مکروہ اور مباح سب کے لئے سنت کی اصطلاح ہی استعمال کرتے ہیں۔ موضوعی اعتبار سے محدثین نے کتب سنن میں احادیث روایت کیں۔ ورنہ محدثین کے نزدیک یہ پانچوں نام سنت ہی کہلاتے ہیں۔احکام خمسہ کی تفصیل وتعریف درج ذیل ہے۔

احکام خمسہ: فقہاء کرام نے شریعت کے دو مآخذ قرآن وسنت سے احکام خمسہ کا استنباط کیا۔ ان سب احکام کو بجالانے کے لئے اہم بات تزکیہ نفس کی بھی ہے۔یعنی محض فرض ادا کردینے سے وہ ادا نہیں ہوجاتا جب تک دل میں اس فرض کی اہمیت نہ ہو ورنہ وہ ایک مشق ہوگی جو شاید لوگوں کے سامنے تو ادا ہوجائے مگر اللہ کے سامنے نہیں۔یہی حال دوسرے احکام کا ہے۔

۱…فرض :
اس فعل کو کہتے ہیں جو دلیل قطعی سے ثابت ہو۔ یعنی شارع(قرآن وحدیث) نے جس کے بجا لانے کا حکم لازمی اور حتمی طور پر دیاہو ۔ اس کا تارک سخت گناہ گار اور منکر کافر ہو جاتا ہے۔فقہاء اسے واجب بھی کہہ دیتے ہیں۔ مگر بعض فرض اور واجب کے درمیان تفریق کرتے ہیں۔
۲…سنت: 
اس فعل کو کہتے ہیں جو رسول اکرم ﷺ نے کیا ہو۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔
سنت مؤکدہ:
ہر وہ عمل جو آپﷺ نے بکثرت اورمسلسل کیا اور شاذ و نادر ہی اسے ترک کیا جس کے بجا لانے پر آپﷺنے ثواب بتایا اوربکثرت ترک کرنے پر سخت ملامت کی ہو۔ اس عمل کا صحیح دلیل سے ثابت ہونا بہت ضروری ہے۔ فقہی اصطلاح میں اسے سنت راتبہ بھی کہتے ہیں۔
سنت غیر مؤکدہ: 
ہر وہ عمل جو آپ ﷺ نے بغیر پابندی کے کبھی کبھار کیا ہو اور بکثرت اسے چھوڑا ہو۔ اسے بجالانے پر آپ ﷺ نے ثواب بتایا ہو اور نہ کرنے پر کوئی گناہ نہ فرمایا ہو۔ اس سنت کو بلاعذر بھی ترک کیا جاسکتا ہے۔ اس عمل کا بھی صحیح دلیل سے ثابت ہونا ضروری ہے فقہی اصطلاح میں اس سنت کا دوسرا نام سنت غیر راتبہ ہے۔
نوٹ: ہماری اکثریت سنت کے معاملے میں افراط وتفریط کا شکار ہے۔ غیر مؤکدہ کو سنت مؤکدہ کا درجہ دے دیا جاتا ہے اور سنت مؤکدہ کو غیر سنت مؤکدہ کا۔ مثلاً : ننگے سر نماز پڑھنا یا سنت مؤکدہ کا نماز میں ترک کردینایا عشاء کی نماز میں چار فرضوں کے ساتھ تیرہ رکعات ضرور پڑھنا۔اسی طرح سنت مؤکدہ وغیر مؤکدہ کو فرض کا اور فرض کو مؤکدہ وغیر مؤکدہ کا درجہ دے دینا۔ جیسے فرض نماز باجماعت کے ہوتے ہوئے سنت کو پڑھنا یا مختلف اوقات کے نوافل کی ادائیگی فرض سے بھی زیادہ اہم سمجھنا۔

۳… مباح: 
ہر وہ عمل جس کے کرنے پر نہ کوئی ثواب بتایا گیا ہو اور نہ ہی کوئی سزا۔ جیسے: سیب کھانا۔
۴…مکروہ: 
وہ عمل جس کے کرنے کو شرعاً ناپسند کیا گیا ہو۔ جیسے آپ ﷺ کا ارشاد:
إِنَّ اللّٰہَ کَرِہَ لَکُمْ ثَلاثاً: قِیْلَ وَقَالَ ، وَإِضَاعَۃُ الْمَالِ وَکَثْرَۃُ السُّؤَالِ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تین چیزیں ناپسند فرمائی ہیں:سنا ہے اور اس نے کہا، مال کا ضائع کرنا اور ایک ہی مسئلے کے بارے میں بکثرت سوال کرنا۔
۵…حرام:
ہر وہ عمل جسے شریعت نے کرنے سے سختی سے روکا ہو۔ اور اس کا ارتکاب کرنے پر سزا بتائی ہو۔جیسے شرک کرنا، آپ ﷺ کی اتباع نہ کرنا، سود لینا دینا، رشوت لینا، شراب پینایا بدکاری کرنا وغیرہ۔

حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(علمائے اصول کے نزدیک سنت)

علمائے اصول کے نزدیک سنت

جب لفظ سنت، قرآن کریم کے ہمراہ استعمال ہو اس سے مرادساری شریعت ہے جوایمانیات، عقائد واحکام اور اخلاق سبھی کو شامل ہے۔جیسے آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
تَرَکْتُ فِیْکُمْ أَمَرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَ مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّتِیْ۔میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں انہیں تھامنے کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے ۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری سنت۔
یہی وہ سنت وشریعت ہے جس کا مفہوم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ لیا تھا: السُّنَّۃُ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ۔ سنت یعنی شریعت ہی اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ہے۔ مرادجو آپ ﷺ نے کہا ، کیا اور برقرار رکھا۔اسے تھامنا ہے۔سنت کے حسن وقبح کے لئے عقل کو قاضی وفیصل بناناغلط اصول ہے۔ 
امام شاطبی رحمہ اللہ کی تعریف سنت دیکھئے:
یُطْلَقُ لَفْظُ السُّنَّۃِ عَلَی مَا جَائَ مَنقُوْلاً عَنِ النَّبِیِّ ﷺ عَلَی الْخُصُوْصِ مِمَّا لَمْ یَنُصَّ عَلَیْہِ فِی الْکِتَابِ الْعَزِیْزِ۔ لفظ سنت کا اطلاق ا س شریعت پر ہے جو بالخصوص آپ ﷺ سے منقول ہو اورجس کی نص کتاب عزیز میں نہ ہو۔ (الموافقات ۴/۳)

رسول اکرم ﷺکو شارع کے مقام پر فائز سمجھ کر انہوں نے پھر سنت کی تعریف یہ کی:
کُلُّ مَا صَدَرَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ مِنْ قَوْلٍ أَو فِعْلٍ أَو تَقْرِیْرٍ مِمَّا یَصِحُّ أَنْ یَکُوْنَ دَلِیْلاً لِحُکْمٍ مِنْ أحْکاَمِ الشَّرْعِ۔آپ ﷺ سے صادر ہونے والی کوئی صحیح چیزخواہ وہ قولی ہو یا فعلی وتقریری، سنت کہلاتی ہے تاکہ وہ کسی بھی حکم شرعی کی دلیل بن سکے۔

اس اعتبار سے شریعت میں سنت رسول کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔جسے انہوں نے درج ذیل تقسیم دی ہے:
۱۔ سنت قولی ۔ اس میں دو قسم کی احادیث شامل ہیں۔
أ۔ قول صریح: 
اس میں آپ ﷺ کا کوئی بھی صریح ارشاد ہو۔ جیسے: مَنْ تَعَمَّدَ عَلَیَّ کَذِباً فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔جس نے عمداً مجھ پر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے۔

ب۔ غیر صریح:
مَا کَانَ لَہُ حُکْمُ الْمُضَافُ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ۔ آپ ﷺ کی طرف منسوب کوئی حکم ہو یہ مرفوع حکمی ہے۔

۲۔ سنت فعلی: 
اس حدیث میں صرف آپ ﷺ کے اعمال کا ذکر ہوتا ہے۔مثلاً نماز، روزہ، حج کے افعال ومناسک وغیرہ۔آپ ﷺ نے یہی چاہا کہ یہ افعال امت کے لئے شریعت بن جائیں۔ حدیث فعلی کی خوبی یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی ذات گرامی کو متحرک اور متصرف باور کراتی ہے۔ بالخصوص وہ حرکت جس سے کسی کی راہنمائی واصلاح مطلوب ہویا تعلیم دینا ہو۔اس کی راہنما ومعلم وحی ہوتی ہے۔رسول اللہ ﷺ کی تمام حرکات بھی اسی لئے ہیں تاکہ دوسرا جان لے کہ شریعت ہم سے یہی کچھ چاہتی ہے۔اسے جاننے کے بعد ہمارے سامنے ذات رسول ﷺ کے متنوع افعال آتے ہیں۔

۳۔سنت تقریری:
اس سے مراد : کسی بات یا فعل پرنبی کریم ﷺ کا سکوت ہویا آپ ﷺ تک ایسی بات پہنچی ہو یا آپ ﷺ نے خوشی محسوس کی یا اسے مستحسن سمجھاہو۔ ابوسعید خدریؓ کی روایت ہے:
أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺ أَتَوا عَلَی حَیٍّ مِنْ أَحْیَائِ الْعَرَبِ فَلَمْ یَقْرُوْہُمْ، فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذَلِکَ إِذْ لُدِغَ سَیِّدُ أَولٰئِکَ، فَقَالُوا: ہَلْ مَعَکُمْ مِنْ دَوَائٍ أَوْ رَاقٍ؟ فَقَالُوا : إِنَّکُمْ لَمْ تَقْرُوْنَا، وَلَا نَفْعَلُ حَتّٰی تَجْعَلُوْا لَنَا جُعْلاً، فَجَعَلُوْا لَہُمْ قَطِیْعاً مِنَ الشَّائِ، فَجَعَلَ یَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَیَجْمَعُ بُزَاقَہُ وَیَتْفِلُ، فَبَرَأَ ، فَأَتَوْا باِلشَّائِ ، فَقَالُوا: لاَ نَأْخُذُہُ حَتّٰی نَسْأَلَ النَّبِیَّ ﷺ فَسَأَلُوْہُ ، فَضَحِکَ ، وَقَالَ: وَمَا أَدْرَاکَ أَنَّہَا رُقْیَۃٌ خُذُوْہَا وَاضْرِبُوْا لِیْ بِسَہْمٍ۔ (متفق علیہ)چند صحابہ رسول، کسی قبیلہ میں گئے جنہوں نے ان کی میزبانی تک نہ کی۔ اس دوران قبیلے کے سربراہ کو سانپ نے ڈسا ۔ وہ آئے اور ان سے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی دوایا دم ہے۔ صحابہ نے جواباً کہا: تم نے ہماری عزت افزائی نہیں کی تھی اب ہم یہ کام اس وقت کریں گے جب ہمارے لئے کوئی اجرت یا حصہ مقرر کردوگے ۔انہوں نے بکریوںکا ایک چھوٹاریوڑ دینے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ ایک مسلمان نے سورہ فاتحہ پڑھی۔ لعاب سمیت اس بیمار پر دم کیا، وہ ٹھیک ہوگیا۔ بکریاں انہوں نے مسلمانوں کو دیں ۔ صحابہ میں کسی نے کہا: ہم یہ نہیں لیں گے جب تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ سے پوچھ نہ لیں۔ آپ ﷺ سے جب پوچھا گیاتو آپ مسکرائے اور فرمایا: تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ ایک دم ہے۔ ان بکریوں کو لو اور میرا حصہ بھی اس میں رکھو۔

سنت تقریری کے تحت مزید درج ذیل بھی آتا ہے:
۱۔ آپ ﷺ کے زمانہ میں ہی یہ فعل ہوا ہو اور مشہور ہو۔ اس جیسے فعل کا مخفی رہنا عادۃً محال ہو۔ جیسے: سیدنا معاذ ؓ کا آپ ﷺ کے ساتھ نماز عشاء پڑھنا اور پھر بعد میں اپنے قبیلہ میں جا کر لوگوں کو وہی نماز پڑھانا۔ جن میں وہ متنفل ہوتے اور نمازی مفترض۔ ان کا یہ عمل رسول اللہ کے علم میں تھا اور آپ ﷺ نے ہی متنفل امام کے پیچھے مفترض نمازیوں کی نماز کو جائز قرار دیا تھا۔خواہ امام ومقتدی کی نیتیں ایک دوسرے سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔(متفق علیہ) یا بعد از جماعت فجر صحابی کی رہ گئی دوسنتوں کا آپ ﷺ کے سامنے ہی پڑھنا اور اس کی وضاحت کے بعدآپ ﷺ کا خاموش رہنا۔

۲۔ آپ ﷺ کے زمانے میں ہی وہ فعل ہوا ہو مگر عادۃً وہ فعل شہرت اختیار نہ کرسکا ہو۔ نیز یہ بھی معلوم نہ ہوکہ آیا آپ ﷺ کو بھی اس کا علم ہے یا نہیں؟ بعض علماء اس فعل کو حجت نہیں سمجھتے جب کہ دوسرے اسے حجت سمجھتے ہیں ہاں اگر کوئی اس کے خلاف دلیل مل جائے تو اور بات ہے ورنہ اللہ تعالیٰ تو مطلع کرنے والا ہے اور جبریل امین آپ ﷺ پر شریعت ہی لے کر نازل ہوتے تھے۔

ان دونوں اقوال میں یہ قول زیادہ صحیح ہے کہ آپ ﷺ کا یہ فعل حجت ہے۔ صحابہ کرام کے حالات کا ادراک آپ ﷺ کو ہوتا تھا۔ وہ خود بھی جانتے تھے کہ جب تک قرآن اتر رہا ہے کسی غلط بات پر اڑنا مناسب نہیں خواہ اس کی اطلاع اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو نہ دیں۔
مثلاً: سیدنا ابن عمرؓ فرماتے ہیں:
کُنَّا نَتَّقِی کَثِیراً مِنَ الْکَلامِ وَالاِنْبِسَاطِ إِلَی نِسَائِنَا عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ مَخَافَۃً أَنْ یَنْزِلَ فِیْنَا اْلقُرْآنَ فَلَمَّا مَاتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ تَکَلَّمْنَا۔(مسند احمد ۹؍۲۱۳، صحیح بخاری: ۴۸۹۱)ہم اپنی بیویوں سے زیادہ گفتگو اور ہنسی دل لگی کرنے سے باز رہتے تھے اس ڈر سے کہ کہیں ہمارے بارے میں قرآن نہ اتر آئے۔ جب آپ ﷺ کی وفات ہوگئی پھر ہم بولنے لگے۔ 

۳۔زمانہ تشریع میں لوگوں کے ہاں کوئی عمل یا فعل عادۃًمعروف ہواور شریعت نے اس بارے میں کوئی امر ونہی نہ کیا ہو۔ تو ایسا فعل بھی آپ ﷺ کی طرف سے کوئی حکم نہ ہونے کے سبب تقریری ہوگا۔ جیسے: لوگ گھوڑے پالتے تھے مگر کیا وہ ان کی زکاۃ نکالتے تھے؟ کوئی ایسا مسئلہ سامنے نہیں آیا ۔اگر وہ ایسا کرتے تو یقیناً یہ عمل صحابہ سے مخفی نہ ہوتا۔ لہٰذا جب اس مسئلہ کا کوئی حکم ہی نہیں تو سنت یہی ہوئی کہ ان میں زکاۃ نہیں۔

٭… ایک اصولی عالم اسی سنت سے ہی قاعدے اور اصول بناتا ہے تاکہ مجتہدین استدلال واستنباط کے وقت ان سے کام لیں۔مثلاً: اصولی کا یہ کلیہ ۔ الأمْرُ یَدُلُّ عَلَی الْوُجُوبِ۔ امر وجوب پر دلالت کرتا ہے یا النَّہْیُ یَقْتَضِی الْفَسَادَ أَوِ التَّحْرِیْمَ ۔ کہ نہی فاسد ہونے یا حرام ہوجانے کا تقاضا کرتا ہے۔

٭…علماء اصول کے نزدیک شریعت کے متفق علیہ ادلہ جن سے فقہی احکام مستنبط ہوتے ہیں چار ہیں: الکتاب ، والسنۃ، الإجماع اور القیاس۔ اس لئے اصولی علماء دو قسم کے ہیں علماء اصول فقہ اور علماء عقیدہ۔

٭…فقہ واصول فقہ میں یہ بات بھی موضوع بحث ہے کہ قرآن کریم تو سنت کو منسوخ کرتا ہے مگر کیا سنت، قرآن کو منسوخ کرسکتی ہے؟ بعض لوگ اسے سخت خیالی سمجھتے ہیں مگر یہ بحث کوئی نئی نہیں بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ سے قبل کی ہے۔ دلائل یہی بتاتے ہیں کہ سنت ثابتہ قرآن کے احکام کو منسوخ کرسکتی ہے۔

امام شافعیؒ سمیت بہت سے ائمہ فقہاء کا کہنا ہے: حکمت، قرآن کریم کا وہ فہم ہے جو رسول اکرم ﷺ کو بذریعہ وحی حاصل ہوا جس کا تعلق آپ ﷺ کے قول وفعل اور تقریر سے ہے۔جو سنت رسول ﷺہے۔جیسے لقمان علیہ السلام کو حکمت عطا ہوئی جسے کتاب مقدس پڑھنے کے بعد اللہ نے انہیں نصیب فرمائی۔ انہوں نے اس کی نصیحت اپنے بیٹے کو بھی فرمادی۔یہی ان کی سنت تھی۔ جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑے منفرد انداز میں کیا ہے۔اس حکمت میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی آگاہی پر یقین، شرک سے نفرت، تکبر و غرور سے دوری، ذاتی اصلاح اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین ہی تھی۔

حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(علمائے حدیث کے نزدیک سنت)

علمائے حدیث کے نزدیک سنت

محدثین کرام کی اصطلاح میں سنت وہ ہے جو رسول اکرم ﷺ سے قول، فعل ، تقریر، صفت خلقی ، صفت خلقی اور سیرت سے مأثور ہو۔جس میں عقائد ، احکام کے علاوہ اخلاق بھی شامل ہیں۔کتب صحاح اور سنن میں ایمانیات و احکام کے ساتھ اخلاق پر مشتمل احادیث اسی مفہوم کو ادا کرتی ہیں۔اس طرح حدیث وسنت کے لغوی اور اصطلاحی معانی میں واضح یکسانیت کی وجہ سے محدثین سنت کو حدیث کا مترادف سمجھتے ہیں۔

حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(علمائے عقیدہ کے نزدیک)

علمائے عقیدہ کے نزدیک

٭… امام ابنؒ ابی عاصم نے اپنی کتاب السُّنَّۃ میں سنت کی تعریف یہ کی:
اَلسُّنَّۃُ اسْمٌ جَامِعٌ لِمَعَانٍ کَثیرۃٍ فِی الأحْکامِ وَغیرِ ذَلکَ، وَمِمَّا اتَّفَقَ أَہلُ الْعِلمِ عَلَی أَنْ نَسَبُوہُ إِلٰی السُّنَّۃِ: الْقَولُ بِإِثْبَاتِ الْقَدْرِ، وَأَنَّ اْلِاسْتِطَاعۃَ مَعَ الْفِعْلِ لِلْفِعلِ، وَالإِیْمَانُ بِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ، حُلُوِّہِ وَمُرِّہِ، وَکُلُّ طَاعَۃٍ مِنْ مُطِیْعٍ فَبِتَوْفِیْقِ اللّٰہِ لَہُ، وَکُلُّ عَاصِیَۃٍ مِنْ عَاصٍ فَبِخُذْلَانِ اللّٰہِ السَّابِقِ مِنْہُ وَلَہُ، ۔۔۔۔۔
لفظ سنت ایک جامع اسم ہے جو احکام شریعت وغیرہ میں بے شمار معانی رکھتا ہے۔اہل علم جن معانی پر متفق ہوئے اور انہیں سنت کی طرف منسوب کیا ان میں سے: قضاء وقدر کے ثابت ہونے کاقول، اور یہ بھی کہ کسی فعل کے لئے ہمت واستطاعت فعل کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔تقدیر کے شر اور خیر اور اس کے میٹھے اور کڑوے ہونے پر ایمان، مطیع کی ہر اطاعت اسے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے ہوتی ہے اور نافرمان کی ہر معصیت اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طے شدہ رسوائی وذلت کے سبب ہوتی ہے۔ سعید وہی ہے جس کے لئے سعادت سبقت لے گئی اور شقی وہ ہے جس کے لئے شقاوت سبقت لے گئی۔اشیاء بھی اللہ تعالیٰ کی مشیئت و ارادے سے خارج نہیں ہیں۔ بندوں کے خیر وشر والے افعال انہی کے افعال ہیں اور ان کے خالق کی تخلیق ہیں۔ قرآن ۔۔اللہ تبارک وتعالیٰ کا کلام ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ کلام کیا ہے ،یہ مخلوق نہیں ہے۔ جو کہتا ہے: "قرآن ایساکلام ہے جو مخلوق ہے"۔ایسا شخص ان لوگوں میں سے ہوگا جن کے خلاف حجت قائم ہوچکی۔ ایسا شخص اللہ عظیم وبرتر کا کافر ہے۔ایمان قول وعمل کو کہتے ہیں جو گھٹتا بڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا دیدار ہونا ثابت ہے ۔۔ جیسا کہ احادیث میں ہے۔۔ اس کے ولی، آخرت میں اپنی آنکھوں سے اسے دیکھیں گے۔ ابوبکر صدیق آپ ﷺ کے بعد اصحاب رسول میں افضل ترین ہیں اور وہی خلیفۂ رسول ہیں ان کی خلافت، نبوت کی طرز پر ہے۔ جس دن ان کی بیعت ہوئی اس روز بھی وہ صحابۂ رسول میں افضل تھے اور وہی سب سے زیادہ حق دار تھے۔ پھر ان کے بعد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہیں اور پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ان سب پر اپنی رحمت ہو۔

میرے نزدیک سنت کی طرف مزیدجو کچھ منسوب کیا جاسکتا ہے اس میں ایمانیات بھی ہیں۔جیسے: عذاب قبر، منکر نکیر، شفاعت، حوض اور میزان پر ایمان، اصحاب رسول ﷺ کی محبت، اور ان کے فضائل پر ایمان، ان پر سب وشتم یا طعن وتشنیع کا ترک کرنا اور ان سے اپنے تعلقات رکھنا بھی ایمان میں سے ہے۔اہل توحید میں جو فوت ہوا اس پر نماز پڑھنا اور دعائے مغفرت کرنا، گناہ گاروں کے لئے بخش کی امید رکھنا، وعید کو چھوڑ نے پر ایمان، اور بندگان خدا کو اللہ تعالیٰ کی مشیئت کی طرف لوٹانا، ان کا نار جہنم سے نکلنا، جنہیں اللہ اپنی رحمت سے نکالے گا، ہر ظالم امیر کے پیچھے نماز پڑھنا، اورنماز باجماعت پڑھنا، ہر حاکم کے ہمراہ جنگ لڑنا، امر بالمعروف کرنا اور نہی عن المنکر بھی۔ اور ایک دوسرے کی مدد کرنا وغیرہ۔۔۔

٭… علماء عقیدہ آپ ﷺکے قول وعمل اوروتقریر کو ہَدی کا نام بھی دیتے ہیں۔ جس کا مقابل بدعت اور محدثات ہیں۔جیسے کسی کا اعتقاد وعمل مخالف سنت ہو تو کہتے ہیں: فُلاَنٌ عَلَی بِدْعَۃٍ۔فلا ں بدعتی ہے۔یہی معنی حدیث میں ہے:

إِنَّ خَیْرَ الْہَدْیِ ہَدْیُ مُحَمَّدٍ ﷺ وَشَرَّ الأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُہََا وَکُلُّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلاَلَۃٍ وَکُلُّ ضَلاَلَۃٍ فِی النَّارِ۔ یا مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ۔ بے شک بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے اور ہر نئی عبادت بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں جائے گی۔یا جو بھی ہمارے اس دین میں کوئی نئی عبادت گھڑتا ہے تو وہ مردود ہے۔

اسی معنی میں علماء نے کہا : طَلاَقُ السُّنَّۃِ کَذَا وَطَلاَقُ الْبِدْعَۃِ کَذَا،طلاق سنت یہ ہے اور طلاق بدعت یہ۔ یا فُلاَنٌ عَلَی سُنَّۃٍ یعنی قرآن کریم اور حدیث کے موافق اس کا عمل وقول اور عقیدہ ہے۔اور اگر عمل ان کے خلاف ہو تو پھر کہتے ہیں: فُلاَنٌ عَلَی بِدْعَۃٍ۔فلاں بدعتی ہے۔بہر حال لفظ سنت وبدعت ہمیشہ سے دو متضاد لفظ رہے ۔ سنت کے پابند صحابہ کرام رہے اور بدعت منحرف لوگوں کی غذا بنی رہی۔

٭… متأخر علماء نے سنت سے مراد عقیدہ لیا۔کیونکہ بدعات وخرافات ہی نے عقائد کومسخ کیا۔ اہل بدعت اپنے خیالات کو سنت کا لبادہ اوڑھا تے اور دلائل بھی توڑ مروڑ کر پیش کرتے ۔ جس میں ان کے زہد وعبادت، اس کے مختلف روپ ، اور پھر مناصب وسلاسل کی ایک طویل فہرست، نیز عقل وخرد کو حسن وقبح کے اختیار کا معیار بنانا یہ سب ایسی سعی لاحاصل ہیں کہ جن سے سوائے دین سے دوری کے کچھ نہیں ملا۔اس لئے سنت کے بیشتر مباحث میں عقیدہ ٔتوحید اور اصول دین بنیادی حیثیت رکھتے ہیں تاکہ مختلف فرقوں کے اقوال میں صحیح وغلط کی تمیز کی جاسکے۔اگرچہ یہ ایمانیات صحابۂ رسول کے ہاں معروف تھے مگر مشہور نہیں تھے ۔ مثلاً سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول: مَنْ تَرَکَ السُّنَّۃَ کَفَرَ۔ جس نے سنت چھوڑی اس نے کفر کیا۔ان کی مراد اصول دین ہے کیونکہ یہ بات انہوں نے مسائل عقیدہ میں گفتگو کے دوران فرمائی تھی۔ورنہ صحابہ کرام کسی کو معمولی باتوں پر نہیں بلکہ بڑے اہم عقائد کو چھوڑنے اور نہ ماننے پرکافر قراردیتے تھے۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے:
اَلْہَوَی عِنْدَ مَنْ خَالَفَ السُّنَّۃَ حَقٌّ، وَإِنْ ضُرِبَتْ فِیْہِ عُنُقَہُ۔ جو مخالف سنت ہے اس پر خواہش نفس کا غلبہ ہو اکرتا ہے خواہ اس کی گردن بھی اس راہ میں اڑا دی جائے۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول بھی ہے:
القَصْدُ فِی السُّنَّۃِ خَیْرٌ مِنَ الِاجْتِہَادِ فِی الْبِدْعَۃِ۔ سنت میں میانہ روی اختیار کرنا، بدعتی کوشش سے بہتر ہے۔
(سنن دارمی ۱/۷۲)

امام ابن شہاب زہریؒ فرماتے ہیں:
کَانَ مَنْ مَضَی مِنْ عُلَمَائِنَا یَقُولُ: اَلاِعْتِصَامُ بِالسُّنَّۃِ نَجَاۃٌ۔ سنت کو تھامنے میں ہی نجات ہے۔ہمارے اسلاف یہی کہا کرتے تھے۔(الزہد از ابن مبارک۱/۲۸۱)

فضیل ؒبن عیاض کہتے ہیں:
أَدْرَکْتُ خِیَارَ النَّاسِ کُلَّہُمْ أَصْحَابُ سُنَّۃٍ: یَنْہَوْنَ عَنْ أَصْحَابِ الْبِدَعِ۔ میں نے تمام لوگوں میں بہتر لوگ سنت والوں کو پایا جوبدعتیوں سے روکا کرتے تھے۔(الشرح والابانہ از ابن بطہ: ۱۳۵)
اس لئے علماء وعظ وارشاد بھی اپنی اصطلاح میں سنت اس اسوہ ٔرسول کو کہتے ہیں جس کے مقابلے میں بدعت ہو۔ سیدنا ابوالدرداء فرمایا کرتے: الِاقْتِصَادُ فِی السُّنَّۃِ خَیرٌ مِنِ اجْتِہادٍ فِی بِدْعَۃٍ۔ سنت نبوی میں میانہ روی اس کوشش سے بہتر ہے جو بدعت کے لئے صرف کی گئی ہو۔مثلاً عبادت سنت نبوی کے مطابق ہو تو معتدل اور بہتر ہے اور اگر سنت سے ہٹی ہوئی ہو تو اس میں کی گئی محنت بھی بیکار ہے کیونکہ وہ بدعت ہے۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
إنَّ بَنِیْ إسْرَائِیْلَ تَفَرَّقَتْ عَلَیاثْنَتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ مِلَّۃً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِیْ عَلَی ثَلاَثٍ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّۃً، کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلاَّ وَاحِدَۃً، قَالَ: وَمَنْ ہِیَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَیْہِ الْیَوْمَ وَأصْحَابِیْ یقیناً بنو اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئی اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ۔ یہ سب دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک کے۔ صحابی ٔ رسول نے عرض کی: اللہ کے رسول ! وہ بچنے والاکون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس مسلک پر میں آج ہوں اور میرے صحابہ۔

اس صحیح حدیث کی تفصیل بتاتے ہوئے علماء یہ لکھتے ہیں۔
أُصولُ الْبِدْعَۃِ أَرْبَعَۃٌ۔ وَسَائِرُ اثْنَتَیْنِ وَالسَّبْعِیْنَ فِرْقَۃً عَنْ ہٰؤلائِ تَفَرَّقُوْا، وَہُمْ : الْخَوَارِجُ، وَالرَّوَافِضُ، وَالْقَدَرِیَّۃُ وَالْمُرْجِئَۃُ۔ بدعت کے موسس یہ چار فرقے ہیں اور باقی بہتر انہی سے پھوٹے ہیں۔ یہ: خارجی، رافضی ، قدری اور مرجئہ ہیں۔
خوارج نے مسلمانوں کے فکری اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی ابتداء کی اور مرتکب کبیرہ کو انہوں نے کافر قرار دیا۔
رفض نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر باقی صحابہ کرام پر سب وشتم سے اپنا آغاز کیا۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو الہ کا درجہ دے کر بعد میں توحید اور اسلام پر طعن کا دروازہ کھول دیا۔
قدریہ نے اپنی شناخت نصوص دین میں سے کسی بھی نص کے صاف انکار سے کرائی۔ یعنی ایمان بالقدر اور اس کے خیر وشر پر اعتراضات کی تہہ چڑھائی اور پرے ہوگئے۔
مرجئہ نے جو باب کھولا اس میں عمل صالح کی توہین اور تعلیمات اسلامیہ کی تحقیر ہو اور شیطان ومسلمان کے ایمان کو برابر کردیا۔

بدعت :
لغت میں نئی ایجاد کو کہتے ہیں جیسے :{بَدَیْعُ السَّمٰواتِ وَ الْأرْضِ} اﷲ آسمانوں اور زمین کا نیا موجد ہے۔آپ ﷺ کا یہ ارشاد اس کی دلیل ہے:

مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ۔ جس نے ہمارے اس امر(دین) میں کوئی نئی بات گھڑی جس کا تعلق اس دین سے نہیں تو وہ مردود ہے۔

چونکہ اس کا تعین رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی اور نے کیا ہوتا ہے اور کارِثواب سمجھ کر اس پر عمل کیا جاتاہے ۔ اس لئے شرعی اصطلاح میں یہ بدعت کہلاتی ہے ۔اس بدعت کو اختیار کرنے کے طریقے یہ تھے:

٭…جب صحابہ ٔرسول ﷺنے اپنی آوازیں ذکر الٰہی کرتے وقت بلند کیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:

أَیُّہَا النَّاسُ! اِرْبَعُوا عَلَی أَنْفُسِکُمْ، فَإِنَّکُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمًّا وَلاَ غَائِباً، إنَّمَا تَدْعُونَ سَمِیْعاً ، إِنَّ الَّذِیْ تَدْعُوْنَہُ أَقْرَبُ إِلٰی أَحَدِکُم مِنْ عُنُقِ رَاحِلَتِہِ۔(متفق علیہ)۔لوگو! اپنے اوپر مہربانی کرو(چلاّنے سے کیا فائدہ؟) تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے تم سننے والے کو پکارتے ہو۔ بلاشبہ تم جسے پکارتے ہو وہ تم سے تمہاری اپنی سواری کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے۔

٭…ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے جب عرض کی گئی کہ ایک صاحب جب قرآن پڑھتے ہیں تو Faint یعنی ہوش وحواس کھو بیٹھتے ہیں؟ کیا کیا جائے؟ فرمانے لگیں: صحابۂ رسول تو ایسا نہیں کیا کرتے تھے۔دور ِصحابہ میں فرد واحد میں بھی یہ حرکات ِبدعت نظر آتی تھیں۔ مثلاً ایک صاحب نے دیہات میں گھر بنایا اور چاہا کہ میں وہاں Monk (پیر)بن کر بیٹھ جاؤں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس گھر کو تڑوادیا اور اسے وہاں رہنے سے منع کردیا۔

٭…کوفہ کی جامع مسجد میں حلقۂ ذکر کرنے والوں کوسیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد: 
میں تمہیں کیا کرتے دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولے: ابو عبد الرحمن ! ہم صرف گٹھلیوں پر تکبیر وتہلیل اور تسبیح گن رہے ہیں۔فرمایا: بہتر یہ ہے کہ تم اپنی برائیاں گنو۔ میں تمہارا ضامن بنتا ہوں کہ تمہاری کوئی نیکی ضائع نہیں جائے گی۔ امت محمدﷺ! بہت افسوس ہے تم کتنی جلدی راہ ہدایت سے بھٹک گئے ہو ابھی تو بکثرت صحابۂ رسول تمہارے درمیان موجود ہیں۔ ابھی تو آپ ﷺ کے کپڑے بھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ہی آپ ﷺ کے برتن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے ہیں۔قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم یا تو ایسی ملت پر ہو جو رسول اکرم ﷺ کی ملت سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے یا پھر تم ضلالت وگمراہی کے دروازے کھولنے والے ہو۔وہ کہنے لگے: ابو عبد الرحمن! ہم تو صرف خیر ہی چاہتے ہیں۔فرمانے لگے: خیرکو کتنے چاہنے والے ہیں مگر وہ اسے نصیب نہیں ہوتی۔ یقینا رسول اکرم ﷺ نے ہمیں یہ حدیث ارشاد فرمائی: کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے آگے نہیں جاسکے گا۔ بخدا مجھے نہیں علم، شاید ان کی اکثریت تمہی میں سے ہوسکتی ہے۔ یہ کہہ کر سیدنا ابن مسعود وہاں سے چلے گئے۔ عمرو بن سلمۃ کہتے ہیں: ہم نے ان حلقات کے اکثر لوگوں کو نہروان کی جنگ میں دیکھا وہ ہم پر خوارج کے ساتھ تیر برسا رہے تھے۔(باب کراہیۃ أخذ الرأی۔ سنن الدارمی)

٭…بدعت ، معصیت سے بدتر گناہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدعت شیطان کو سب سے زیادہ پسندہے۔ کیونکہ ایک گناہ گار جانتا ہے کہ وہ گناہگار ہے اور معصیت کا ارتکاب کررہا ہے جبکہ بدعتی یہ سمجھتا ہے کہ وہ مطیع وفرمانبردار ہے اور اطاعت کررہا ہے۔ اس لئے بدعت معصیت سے بری شے ہے۔گناہ گار تو توبہ بھی کرلیتا ہے لیکن بدعتی بہت کم ہی توبہ کرپاتا ہے کیونکہ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ وہ حق پر ہے برخلاف ایک گناہ گار کے ۔ 
امام سفیان ثوریؒ فرمایا کرتے:
البِدْعَۃُ أَحَبُّ إِلَی إِبْلِیْسَ مِنَ الْمَعْصِیَۃِ فَإِنَّ الْمَعْصِیَۃَ یُتَابُ مِنْہَا وَالْبِدْعَۃُ لاَ یُتَابُ مِنْہَا۔(مسند ابن الجعد: ۱۸۸۵، وفتاوی شیخ الإسلام: ۴۷۲؍۱۱) بدعت شیطان ابلیس کو معصیت سے زیادہ محبوب ہے کیونکہ گناہ سے توبہ ہوسکتی ہے مگر بدعت سے نہیں۔
آپ ﷺ کا ارشاد بھی ہے:
إنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی احْتَجَزَ التَّوْبَۃَ عَنْ صَاحِبِ کُلِّ بِدْعَۃٍ۔ (الصحیحۃ: ۱۶۲۰) بے شک اللہ تعالیٰ نے توبہ کو ہر بدعتی سے چھپا رکھا ہے۔

٭…امام حسن بصری فرمایا کرتے:
لاَ تُجَالِسْ صَاحِبَ بِدْعَۃٍ، فَإِنَّہ یُمَرِّضُ قَلْبَکَ۔ (الاعتصام: ۱۷۲؍۱) بدعتیوں کے ساتھ مت بیٹھو کیونکہ یہ تمہارے دل کو مریض کردیں گے۔

اگر اللہ تعالیٰ اہل سنت کو ان بدعتیوں کی ضرر رسانی دور کرنے کے لئے کھڑا نہ کرے تو دین میں فساد برپا ہوجائے جو اہل حرب دشمنوں کے مسلمان ملک پر قابض ہونے سے بھی بڑا ہے۔ کیونکہ موحد لوگ اگرباہوش ومتحرک ہوں تو اہل ایمان کے دلوں میں دین کی جو سچائی ہے بدعتی اسے فاسد نہیں کرسکتے ۔جبکہ اہل بدعت تو دلوں کو ابتداء ہی سے فاسد کردیتے ہیں۔
نوٹ: علمائے سلَف نے اس موضوع پر جو کتابیں لکھیں ان کا نام بھی السُّنَّۃ رکھا۔جن میں ان احادیث کو جمع کیا گیا جو اللہ تعالیٰ کی ذات، اسماء وصفات کو واضح کرتی اوراسے بااختیاربتاتی ہیں۔ایمان بالغیب ، قضاء وقدر میں ایمان کو پختہ کرتی ہیں۔صحابہ رسول کو وہ مقام دیتی ہیں جو اللہ ورسول نے انہیں دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام بخاریؒ، امام ابوداؤدؒ، امام نسائیؒ، امام ابنؒ ماجہ وغیرہم نے اپنی کتب میں کتاب الإیمان، کتاب التوحید اور کتاب السنۃ کے نام سے باب بندی کی ہے۔ اور ابوبکر الأثرم، عبد اللہ بن احمد، ابوبکر الخلال، ابو القاسم طبرانی ، ابوالشیخ اصفہانی اور ابوعبداللہ بن ابی زمینین نے کتاب السنہ کے نام سے کتب لکھیں اور عقیدہ کے مسائل بیان کئے۔شرح السنۃ امام بربہاری کی ہے جس میں عقیدہ کی شرح کی ہے ہے۔ عقیدہ طحاویۃ اور عقیدہ واسطیہ جیسی کتب بھی عقائد کو واضح کرتی ہیں کہ اہل السنۃ کون ہیں؟ کون سا فرقہ ناجیۃ ہے جسے اہل السنۃ والجماعۃ کہا گیا ہے اور کون سا ضالہ۔ یہی علماء اہل السنۃ کہلائے۔

حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(سنت، مختلف مدارسِ فکر کے یہاں)

سنت، مختلف مدارسِ فکر کے یہاں

سیدنا عمرؓ نے علم وفضل میں بزرگ صحابہ کرام کو مدینہ سے باہر آباد ہونے کی اجازت نہ دی ۔جس کی متعدد وجوہات تھیں:

…خلافتی امور چلانے میں وقت ضرورت ان سے مشورہ کرتے۔

…یہ معزز کہیں مستقل رہائش اختیار کرلیتے تو کئی آزمائشیں شروع ہوسکتی تھیں۔

…لوگوں کی نفسیات سے واقف تھے فرمایا کرتے: مجھے سب سے زیادہ ڈر یہ ہے کہ تم لوگ مختلف شہروں میں پھیل نہ جاؤ۔

… ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اس بارے معمولی سستی ہوئی تو ممکن ہے مفتوحہ علاقوں میں کوئی فتنہ سر اٹھائے کیونکہ ایسے مقدس منظور نظر لوگوں کے گرد عقیدت مند جمع ہوکر کئی شبہات پھیلادیں گے اس طرح بہت سی قیادتیں اور جھنڈے معرض وجود میں آجائیں گے جو بالآخر انتشار اور شورو غوغا کا سبب بن جائیں گے۔

چنانچہ سیدنا عمر ؓ کی شہادت کے بعدیہی فتنے اٹھے اورشخصی خیالات کی بناء پر مختلف مکتبہ ہائے فکر وجود میں آئے۔ کچھ نے مرتکب کبیرہ کو کافر کہا۔ اور بعض نے صحابہ کرام کو اسلام سے نکال دیا۔ اور کچھ آیات قرآنیہ کا انکار کربیٹھے تو کسی نے شیطان اور مسلمان کے ایمان کو برابر قرار دیا۔سبھی نے نام تو سنت کا لیا مگر اس کا استعمال حسب منشأ غلط مقاصد کے لئے کیا۔ان حالات میں جو لوگ سنت رسول کے ساتھ جڑے رہے وہ اہل السنۃ کہلائے۔انہی کے ماہرین نے سنت کی صحیح تعریف کی تاکہ انحراف کی کوئی صورت اس میں نہ آنے پائے۔

حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(مَضَتِ السُّنَّۃُ کا کیا مطلب ہے؟)

مَضَتِ السُّنَّۃُ کا کیا مطلب ہے؟

صحابہ کرام کا متفقہ اجتہادی عمل بھی سنت کہلاتا ہے۔یہی مَضَتِ السُّنَّۃُ ہے۔ مراد یہ ہے کہ زمانۂ صحابہ میں یہ طریقہ متفقہ رہا ہے۔مثلاً: انسؓ بن مالک کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے شرابی کو کھجورکی چھالوں اور جوتیوں سے کوڑے مارے ۔ سیدنا ابوبکرؓ نے چالیس کوڑے مار ے پھر سیدنا عمر ؓکے دور میں دیہاتوں اور بستیوں سے لوگ اور قریب آگئے۔ سیدنا عمر ؓنے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا:
مَا تَرَوْنَ فِیْ جِلْدِ الْخَمْرِ؟ شرابی کے کوڑوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ: أَرَی أَنْ تَجْعَلَہَا کَأَخَفِّ الْحُدُوْدِ قَالَ: فَجَلَدَ عُمَرُ ثَمَانِیْنَ۔ عبد الرحمن بن عوف نے عرض کی کم تر حد مقرر کیجئے۔ انسؓ کہتے ہیں پھر انہوں نے اسی کوڑے شرابی کو لگائے۔(صحیح بخاری۶۷۷۹، ۶۳۹۷) 
مگر کسی صحابی کے انفرادی عمل کو سنت نہیں کہا گیا۔

بعد میں فقیہ ومجتہد کے قول وعمل یااس کااستنباط جب مسلکی روش بنا تو اسے بھی سنت کا نام دے دیا گیا۔ اس کے لئے یہ اصول بنا : عالم کا قول یا فتوی یا کسی حدیث کی تصحیح وتضعیف ہوگی اوراسے تعامل امت کا نام دے کر سنت قرار دیا اور دلیل یہ دی کہ لاتَجْتَمِعُ أُمَّتِیْ عَلَی ضَلاَلَۃٍ۔میری امت کبھی ضلالت پر اکٹھی نہ ہوگی۔ حالانکہ دیگر مسالک اسے تعامل امت کیا سنت نام بھی نہیں دیتے۔بلکہ ایسے استنباط وعمل کو صحیح حدیث سمجھ کر اسے ترک کرنے کا حکم دیتے ہیں۔

Sunday, December 16, 2018

حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(سنت،کتاب اللہ بھی ہے)

سنت ،کتاب اللہ بھی ہے

لفظ کتاب اللہ بھی اسی سنت کے معنی میں استعمال ہوا جس طرح سنت کا لفظ کتاب اللہ کے ساتھ مستعمل ہوا۔مثلاًایک شادی شدہ عورت اور غیر شادی شدہ نوجوان مزدور (عسیف) کا مقدمہ جب آپ ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تو فرمایا:
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَأَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللّٰہِ جَلَّ ذِکْرُہُ۔واللہ میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔
فیصلہ رجم کی سزا کا تھا جومقدمہ کے فریقین نے قبول کیا۔مگر کیا یہ فیصلہ قرآن کریم میں ہے؟ نہیں! بلکہ احادیث میں ہے جو عین کتاب اللہ اور منشأ الٰہی کے مطابق ہے۔ ا س لئے اسے آپ ﷺ نے خود کتاب اللہ سے تعبیر کیا۔آپ ﷺ کے فیصلے سے قبل یہی سزادیگر صحابہ بھی اسے بتاتے رہے جو انہیں معلوم تھی۔ورنہ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہوگی کہ صرف حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ سے قرآن کریم ہی مراد لیا جائے کیونکہ اس سے سارے ذخیرہ ٔحدیث کا انکار ہوتا ہے اور کسی کو محروم کرنا بھی مراد ہے۔شیخ عبد الرحمن کیلانی ؒ لکھتے ہیں: صحابہ کرام رسول اکرم ﷺ سے کتاب اللہ کا مفہوم جان چکے تھے کہ اس سے مراد شریعت کے وہ تمام عقائد واحکام ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمادئے ہیں۔

٭…اُم المؤمنین نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو خرید کر آزاد کرنا چاہا۔ سیدہ بریرہ ؓ کے مالک نے حق تولیت اپنے پاس رکھنے کی شرط لگا دی۔آپ ﷺ کے علم میں جب یہ بات آئی تو خطبہ عام دیا اور فرمایا: مَا بَالُ النَّاسِ یَشْتَرِطُونَ شُرُوْطاً لَیْسَتْ فِی کِتَابِ اللّٰہِ۔۔لوگ کیوں ایسی شروط رکھتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں۔ مگرکیا یہ شرط اَلْوَلاَئُ لِمَنْ أَعْتَقَ تولیت اسی کی ہوگی جو آزاد کرے گا ۔قرآن کریم میں ہے؟کتاب اللہ سے مراد کیا یہی مجلد کتاب ہے یا اس سے مراد آپ ﷺ نے وہ شریعت لی جو آپ ﷺ پر نازل ہوئی تھی؟ صحابۂ رسول نے بھی یہی سمجھا۔اس لئے بریرہ رضی اللہ عنہا کا حق تولیت ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہی آپ ﷺ نے دیا اس لئے کہ اسے خرید کرآزاد کرنے والی وہی تھیں۔ (صحیح بخاری ، کتاب الشروط)

٭… سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی صحابہ رسول اور نئی نسل کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا: الرَّجْمُ فِی کِتَابِ اللّٰہِ حَقٌّ مَنْ زَنٰی إِذَا أُحْصِنَ۔ جب شادی شدہ زنا کرے تو اس کے لئے رجم کی سزا کتاب اللہ سے واقعتاً ثابت ہے۔(صحیح بخاری ، کتاب المحاربین، باب رجم الحبلی)۔ مگرکیا رجم کا حکم کتاب اللہ میں ہے؟ اس لئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول حَسْبُنَاکِتَابُ اللّٰہِ پر تبسم بکھیرنے کی ضرورت نہیں۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک باب باندھ کر یوں واضح کیا ہے۔ بَابُ الْمُکَاتَبِ وَمَا لاَیَحِلُّ مِنَ الشُّروطِ الَّتِی تُخَالِفُ کِتَابَ اللّٰہِ۔ مکاتب اور ایسی شروط جو کتاب اللہ کی رو سے ناجائز ہیں۔

٭…ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ کی بیماری نے شدت اختیار کرلی تو آپ ﷺ نے فرمایا:
اِیْتُوْنِیْ بِکِتَابٍ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لاَ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ۔ میرے پاس لکھنے کا سامان لاؤ میں تمہیں کچھ تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہوسکو۔ 
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم ﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے ۔ حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ یہ ہمارے لئے کافی ہے۔لوگ آپس میں بحث وتکرار کرنے لگے۔ نبی کریم ﷺ کو یہ بحث ناگوار گذری ۔ فرمایا: قُوْمُوْا عَنِّیْ لاَ یَنْبَغِیْ عِنْدِی التَّنَازُعُ۔ یہاں سے اٹھ جاؤ میرے پاس ایسی بات مناسب نہیں۔سیدنا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
إنَّ الرَّزِیْئَۃَ کُلَّ الرَّزِیْئَۃِ مَا حَالَ بَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَبَیْنَ کِتَابِہِ۔نبی کریم ﷺ اور ان کی طرف سے تحریر کے درمیان حائل ہونا انتہائی افسوسناک بات تھی۔(صحیح بخاری: ۱۴۴)

سیدنا عمر ؓ نے کہا تھا: أَہَجَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ؟(صحیح مسلم) کیا نبی کریم ﷺ کوئی نامعقول بات کہہ سکتے ہیں؟ مراد یہ کہ ہرگز نہیں۔ اگر یہ بات غلط ہوتی تو آپ ﷺ سیدنا عمرؓ کی اصلاح فرما کے انہیں خاموش کرادیتے۔ اس لئے ان کی اس رائے کو آپ ﷺ نے برقرار رکھا ورنہ حتمی ارادہ ہوتا تو آپ ضرور وہ تحریر لکھوا دیتے۔

رسول اکرم ﷺ حال صحت وحالت مرض کسی صورت میں بھی شرعی احکام تبدیل نہ کرسکتے تھے۔اور نہ ہی اپنے فرائض منصبی میں کوئی کوتاہی کرسکتے تھے۔آپ ﷺ کے بیمار ہوجانے سے نہ تو آپ ﷺ کے مرتبے میں کوئی فرق پڑسکتا تھا اور نہ ہی شریعت میں کوئی نقص پیدا ہوسکتا تھا۔

وہ کتابت آپ کیا کروانا چاہتے تھے؟ اس بارے میں سبھی اندازے ہیں یا بدگمانیاں۔کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔اس لئے نہ لکھوانے کا فیصلہ بھی وحی کے مطابق ہوا اور لکھوانے کاپہلا حکم منسوخ ہوگیا۔

سوال یہ ہے کہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے یہ جملہ کیوں ارشاد فرمایا؟ کیا یہ ان کی فراست اور دقت نظر نہ تھی کہ کچھ لکھوانے کے بعد اگر امت اس پر عمل نہ کرسکی تو وہ لائق سزا ہو گی۔ نیز آپ ﷺ کا لکھا ہوا نص ہوجاتاجس میں اجتہاد کی گنجائش باقی نہ رہتی۔یہ تھا ان کا دین کے بارے میں کامل یقین کہ امت اب گمراہ نہیں ہوسکتی۔ اس لئے انہوں نے نبی کریم ﷺ کا بوجھ گھٹانے کی کوشش کی ۔ یہی ان کی فقاہت تھی۔ اس لئے اس واقعے پر نہ کوئی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر خفا ہوا اور نہ ہی کسی نے خوشی کا اظہار کیا۔

٭…دیگر فقہاء کرام بھی کتاب اللہ کے مفہوم سے مراد سارا دین اور بالخصوص رسول اکرم ﷺ کا فرمایا ہوا حکم وفیصلہ ہی لیتے ہیں۔ صحابہ کرام بھی رسول اکرم ﷺ سے کتاب اللہ کا مفہوم جان چکے تھے کہ اس سے مراد شریعت کے وہ تمام عقائد واحکام ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمادئے ہیں۔بے شمارخطبات میں آپ ﷺ نے کتاب اللہ کے الفاظ ارشاد فرما ئے اوران کایہی مفہوم صحابہ کرام کو باور کرایا۔(فتنہ پرویزیت: ۱۴۱)

٭…اس لئے جو کام اللہ ورسول کے تھے صحابہ کرام نے انہیں اپنے ہاتھ نہیں لیا بلکہ ان کی حدود میں رہنے کی کوشش کی۔ اپنی رائے دینے میں بہت محتاط تھے۔ چہ جائیکہ وہ قرآن کریم سے سارے مطالب لے کراس کی اصطلاحات تک بدل دیں۔اس سوچ نے غالباً انہیں یہ جرات بھی دی کہ نص کے خلاف کسی کا کوئی فیصلہ یا حکم سنا تو برملا اس کی اصلاح چاہی یا کردی۔ خلیفہ راشدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دئے ہوئے آرڈینینس کو ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر نے یہ کہہ کر رد کردیا تھا: مَنْ أَبِی؟ آپ ﷺ کی اجازت اگر حج تمتع کے بارے میں ہے تو میرا باپ کون ہوتا ہے؟جو اسے منع کرے۔(مسند احمد)

منبر پر جب مجمع عام میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حقِ مہر زیادہ دینے پر منع فرمایا تو خواتین کی مجلس میں بیٹھی ایک خاتون نے برملا کہا: عمر! اگر اللہ اس کی اجازت دیتا ہے تو آپ کون ہیں اسے روکنے والے؟ سنتے ہی فرمایا: أَصَابَتِ امْرَأَۃٌ وَأَخْطَأَ عُمَرُ۔ عورت نے درست بات کہی اور عمر سے غلطی ہوگئی۔رضی اللہ عنہ۔

جمہور فقہاء اس رائے، قیاس یا اجماع کو تسلیم ہی نہیں کرتے جو سنت کے مخالف ہو۔ اس لئے امام مالک رحمہ اللہ کا اصول عمل اہل مدینہ ہی صحیح حدیث پر ترجیح پائے گا علماء موالک نے اس کی بہت سی تعبیرات پیش کی ہیں یہی حال اس اجماع کو تسلیم نہ کرنے کا ہے جو فقہاء اربعہ کے نام سے ان کے بعد نام پا گیا۔ اس لئے من مانے مفہوم کو اخذ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی چہ جائے کہ اسے شریعت مانا جائے۔

٢٣٥- کیا مرغ یا انڈے کی قربانی جائز ہے.؟

✍🏻مجاہدالاسلام عظیم آبادی سوال-مدعیان عمل بالحدیث کا ایک گروہ مرغ کی قربانی کو مشروع اورصحابہ کرام کا معمول بہ قرار دیتا ہے۔اور ان میں سے ...