Monday, January 21, 2019

حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(علمائے عقیدہ کے نزدیک)

علمائے عقیدہ کے نزدیک

٭… امام ابنؒ ابی عاصم نے اپنی کتاب السُّنَّۃ میں سنت کی تعریف یہ کی:
اَلسُّنَّۃُ اسْمٌ جَامِعٌ لِمَعَانٍ کَثیرۃٍ فِی الأحْکامِ وَغیرِ ذَلکَ، وَمِمَّا اتَّفَقَ أَہلُ الْعِلمِ عَلَی أَنْ نَسَبُوہُ إِلٰی السُّنَّۃِ: الْقَولُ بِإِثْبَاتِ الْقَدْرِ، وَأَنَّ اْلِاسْتِطَاعۃَ مَعَ الْفِعْلِ لِلْفِعلِ، وَالإِیْمَانُ بِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ، حُلُوِّہِ وَمُرِّہِ، وَکُلُّ طَاعَۃٍ مِنْ مُطِیْعٍ فَبِتَوْفِیْقِ اللّٰہِ لَہُ، وَکُلُّ عَاصِیَۃٍ مِنْ عَاصٍ فَبِخُذْلَانِ اللّٰہِ السَّابِقِ مِنْہُ وَلَہُ، ۔۔۔۔۔
لفظ سنت ایک جامع اسم ہے جو احکام شریعت وغیرہ میں بے شمار معانی رکھتا ہے۔اہل علم جن معانی پر متفق ہوئے اور انہیں سنت کی طرف منسوب کیا ان میں سے: قضاء وقدر کے ثابت ہونے کاقول، اور یہ بھی کہ کسی فعل کے لئے ہمت واستطاعت فعل کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔تقدیر کے شر اور خیر اور اس کے میٹھے اور کڑوے ہونے پر ایمان، مطیع کی ہر اطاعت اسے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے ہوتی ہے اور نافرمان کی ہر معصیت اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طے شدہ رسوائی وذلت کے سبب ہوتی ہے۔ سعید وہی ہے جس کے لئے سعادت سبقت لے گئی اور شقی وہ ہے جس کے لئے شقاوت سبقت لے گئی۔اشیاء بھی اللہ تعالیٰ کی مشیئت و ارادے سے خارج نہیں ہیں۔ بندوں کے خیر وشر والے افعال انہی کے افعال ہیں اور ان کے خالق کی تخلیق ہیں۔ قرآن ۔۔اللہ تبارک وتعالیٰ کا کلام ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ کلام کیا ہے ،یہ مخلوق نہیں ہے۔ جو کہتا ہے: "قرآن ایساکلام ہے جو مخلوق ہے"۔ایسا شخص ان لوگوں میں سے ہوگا جن کے خلاف حجت قائم ہوچکی۔ ایسا شخص اللہ عظیم وبرتر کا کافر ہے۔ایمان قول وعمل کو کہتے ہیں جو گھٹتا بڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا دیدار ہونا ثابت ہے ۔۔ جیسا کہ احادیث میں ہے۔۔ اس کے ولی، آخرت میں اپنی آنکھوں سے اسے دیکھیں گے۔ ابوبکر صدیق آپ ﷺ کے بعد اصحاب رسول میں افضل ترین ہیں اور وہی خلیفۂ رسول ہیں ان کی خلافت، نبوت کی طرز پر ہے۔ جس دن ان کی بیعت ہوئی اس روز بھی وہ صحابۂ رسول میں افضل تھے اور وہی سب سے زیادہ حق دار تھے۔ پھر ان کے بعد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہیں اور پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ان سب پر اپنی رحمت ہو۔

میرے نزدیک سنت کی طرف مزیدجو کچھ منسوب کیا جاسکتا ہے اس میں ایمانیات بھی ہیں۔جیسے: عذاب قبر، منکر نکیر، شفاعت، حوض اور میزان پر ایمان، اصحاب رسول ﷺ کی محبت، اور ان کے فضائل پر ایمان، ان پر سب وشتم یا طعن وتشنیع کا ترک کرنا اور ان سے اپنے تعلقات رکھنا بھی ایمان میں سے ہے۔اہل توحید میں جو فوت ہوا اس پر نماز پڑھنا اور دعائے مغفرت کرنا، گناہ گاروں کے لئے بخش کی امید رکھنا، وعید کو چھوڑ نے پر ایمان، اور بندگان خدا کو اللہ تعالیٰ کی مشیئت کی طرف لوٹانا، ان کا نار جہنم سے نکلنا، جنہیں اللہ اپنی رحمت سے نکالے گا، ہر ظالم امیر کے پیچھے نماز پڑھنا، اورنماز باجماعت پڑھنا، ہر حاکم کے ہمراہ جنگ لڑنا، امر بالمعروف کرنا اور نہی عن المنکر بھی۔ اور ایک دوسرے کی مدد کرنا وغیرہ۔۔۔

٭… علماء عقیدہ آپ ﷺکے قول وعمل اوروتقریر کو ہَدی کا نام بھی دیتے ہیں۔ جس کا مقابل بدعت اور محدثات ہیں۔جیسے کسی کا اعتقاد وعمل مخالف سنت ہو تو کہتے ہیں: فُلاَنٌ عَلَی بِدْعَۃٍ۔فلا ں بدعتی ہے۔یہی معنی حدیث میں ہے:

إِنَّ خَیْرَ الْہَدْیِ ہَدْیُ مُحَمَّدٍ ﷺ وَشَرَّ الأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُہََا وَکُلُّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلاَلَۃٍ وَکُلُّ ضَلاَلَۃٍ فِی النَّارِ۔ یا مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ۔ بے شک بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے اور ہر نئی عبادت بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں جائے گی۔یا جو بھی ہمارے اس دین میں کوئی نئی عبادت گھڑتا ہے تو وہ مردود ہے۔

اسی معنی میں علماء نے کہا : طَلاَقُ السُّنَّۃِ کَذَا وَطَلاَقُ الْبِدْعَۃِ کَذَا،طلاق سنت یہ ہے اور طلاق بدعت یہ۔ یا فُلاَنٌ عَلَی سُنَّۃٍ یعنی قرآن کریم اور حدیث کے موافق اس کا عمل وقول اور عقیدہ ہے۔اور اگر عمل ان کے خلاف ہو تو پھر کہتے ہیں: فُلاَنٌ عَلَی بِدْعَۃٍ۔فلاں بدعتی ہے۔بہر حال لفظ سنت وبدعت ہمیشہ سے دو متضاد لفظ رہے ۔ سنت کے پابند صحابہ کرام رہے اور بدعت منحرف لوگوں کی غذا بنی رہی۔

٭… متأخر علماء نے سنت سے مراد عقیدہ لیا۔کیونکہ بدعات وخرافات ہی نے عقائد کومسخ کیا۔ اہل بدعت اپنے خیالات کو سنت کا لبادہ اوڑھا تے اور دلائل بھی توڑ مروڑ کر پیش کرتے ۔ جس میں ان کے زہد وعبادت، اس کے مختلف روپ ، اور پھر مناصب وسلاسل کی ایک طویل فہرست، نیز عقل وخرد کو حسن وقبح کے اختیار کا معیار بنانا یہ سب ایسی سعی لاحاصل ہیں کہ جن سے سوائے دین سے دوری کے کچھ نہیں ملا۔اس لئے سنت کے بیشتر مباحث میں عقیدہ ٔتوحید اور اصول دین بنیادی حیثیت رکھتے ہیں تاکہ مختلف فرقوں کے اقوال میں صحیح وغلط کی تمیز کی جاسکے۔اگرچہ یہ ایمانیات صحابۂ رسول کے ہاں معروف تھے مگر مشہور نہیں تھے ۔ مثلاً سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول: مَنْ تَرَکَ السُّنَّۃَ کَفَرَ۔ جس نے سنت چھوڑی اس نے کفر کیا۔ان کی مراد اصول دین ہے کیونکہ یہ بات انہوں نے مسائل عقیدہ میں گفتگو کے دوران فرمائی تھی۔ورنہ صحابہ کرام کسی کو معمولی باتوں پر نہیں بلکہ بڑے اہم عقائد کو چھوڑنے اور نہ ماننے پرکافر قراردیتے تھے۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے:
اَلْہَوَی عِنْدَ مَنْ خَالَفَ السُّنَّۃَ حَقٌّ، وَإِنْ ضُرِبَتْ فِیْہِ عُنُقَہُ۔ جو مخالف سنت ہے اس پر خواہش نفس کا غلبہ ہو اکرتا ہے خواہ اس کی گردن بھی اس راہ میں اڑا دی جائے۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول بھی ہے:
القَصْدُ فِی السُّنَّۃِ خَیْرٌ مِنَ الِاجْتِہَادِ فِی الْبِدْعَۃِ۔ سنت میں میانہ روی اختیار کرنا، بدعتی کوشش سے بہتر ہے۔
(سنن دارمی ۱/۷۲)

امام ابن شہاب زہریؒ فرماتے ہیں:
کَانَ مَنْ مَضَی مِنْ عُلَمَائِنَا یَقُولُ: اَلاِعْتِصَامُ بِالسُّنَّۃِ نَجَاۃٌ۔ سنت کو تھامنے میں ہی نجات ہے۔ہمارے اسلاف یہی کہا کرتے تھے۔(الزہد از ابن مبارک۱/۲۸۱)

فضیل ؒبن عیاض کہتے ہیں:
أَدْرَکْتُ خِیَارَ النَّاسِ کُلَّہُمْ أَصْحَابُ سُنَّۃٍ: یَنْہَوْنَ عَنْ أَصْحَابِ الْبِدَعِ۔ میں نے تمام لوگوں میں بہتر لوگ سنت والوں کو پایا جوبدعتیوں سے روکا کرتے تھے۔(الشرح والابانہ از ابن بطہ: ۱۳۵)
اس لئے علماء وعظ وارشاد بھی اپنی اصطلاح میں سنت اس اسوہ ٔرسول کو کہتے ہیں جس کے مقابلے میں بدعت ہو۔ سیدنا ابوالدرداء فرمایا کرتے: الِاقْتِصَادُ فِی السُّنَّۃِ خَیرٌ مِنِ اجْتِہادٍ فِی بِدْعَۃٍ۔ سنت نبوی میں میانہ روی اس کوشش سے بہتر ہے جو بدعت کے لئے صرف کی گئی ہو۔مثلاً عبادت سنت نبوی کے مطابق ہو تو معتدل اور بہتر ہے اور اگر سنت سے ہٹی ہوئی ہو تو اس میں کی گئی محنت بھی بیکار ہے کیونکہ وہ بدعت ہے۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
إنَّ بَنِیْ إسْرَائِیْلَ تَفَرَّقَتْ عَلَیاثْنَتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ مِلَّۃً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِیْ عَلَی ثَلاَثٍ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّۃً، کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلاَّ وَاحِدَۃً، قَالَ: وَمَنْ ہِیَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَیْہِ الْیَوْمَ وَأصْحَابِیْ یقیناً بنو اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئی اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ۔ یہ سب دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک کے۔ صحابی ٔ رسول نے عرض کی: اللہ کے رسول ! وہ بچنے والاکون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس مسلک پر میں آج ہوں اور میرے صحابہ۔

اس صحیح حدیث کی تفصیل بتاتے ہوئے علماء یہ لکھتے ہیں۔
أُصولُ الْبِدْعَۃِ أَرْبَعَۃٌ۔ وَسَائِرُ اثْنَتَیْنِ وَالسَّبْعِیْنَ فِرْقَۃً عَنْ ہٰؤلائِ تَفَرَّقُوْا، وَہُمْ : الْخَوَارِجُ، وَالرَّوَافِضُ، وَالْقَدَرِیَّۃُ وَالْمُرْجِئَۃُ۔ بدعت کے موسس یہ چار فرقے ہیں اور باقی بہتر انہی سے پھوٹے ہیں۔ یہ: خارجی، رافضی ، قدری اور مرجئہ ہیں۔
خوارج نے مسلمانوں کے فکری اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی ابتداء کی اور مرتکب کبیرہ کو انہوں نے کافر قرار دیا۔
رفض نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر باقی صحابہ کرام پر سب وشتم سے اپنا آغاز کیا۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو الہ کا درجہ دے کر بعد میں توحید اور اسلام پر طعن کا دروازہ کھول دیا۔
قدریہ نے اپنی شناخت نصوص دین میں سے کسی بھی نص کے صاف انکار سے کرائی۔ یعنی ایمان بالقدر اور اس کے خیر وشر پر اعتراضات کی تہہ چڑھائی اور پرے ہوگئے۔
مرجئہ نے جو باب کھولا اس میں عمل صالح کی توہین اور تعلیمات اسلامیہ کی تحقیر ہو اور شیطان ومسلمان کے ایمان کو برابر کردیا۔

بدعت :
لغت میں نئی ایجاد کو کہتے ہیں جیسے :{بَدَیْعُ السَّمٰواتِ وَ الْأرْضِ} اﷲ آسمانوں اور زمین کا نیا موجد ہے۔آپ ﷺ کا یہ ارشاد اس کی دلیل ہے:

مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ۔ جس نے ہمارے اس امر(دین) میں کوئی نئی بات گھڑی جس کا تعلق اس دین سے نہیں تو وہ مردود ہے۔

چونکہ اس کا تعین رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی اور نے کیا ہوتا ہے اور کارِثواب سمجھ کر اس پر عمل کیا جاتاہے ۔ اس لئے شرعی اصطلاح میں یہ بدعت کہلاتی ہے ۔اس بدعت کو اختیار کرنے کے طریقے یہ تھے:

٭…جب صحابہ ٔرسول ﷺنے اپنی آوازیں ذکر الٰہی کرتے وقت بلند کیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:

أَیُّہَا النَّاسُ! اِرْبَعُوا عَلَی أَنْفُسِکُمْ، فَإِنَّکُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمًّا وَلاَ غَائِباً، إنَّمَا تَدْعُونَ سَمِیْعاً ، إِنَّ الَّذِیْ تَدْعُوْنَہُ أَقْرَبُ إِلٰی أَحَدِکُم مِنْ عُنُقِ رَاحِلَتِہِ۔(متفق علیہ)۔لوگو! اپنے اوپر مہربانی کرو(چلاّنے سے کیا فائدہ؟) تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے تم سننے والے کو پکارتے ہو۔ بلاشبہ تم جسے پکارتے ہو وہ تم سے تمہاری اپنی سواری کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے۔

٭…ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے جب عرض کی گئی کہ ایک صاحب جب قرآن پڑھتے ہیں تو Faint یعنی ہوش وحواس کھو بیٹھتے ہیں؟ کیا کیا جائے؟ فرمانے لگیں: صحابۂ رسول تو ایسا نہیں کیا کرتے تھے۔دور ِصحابہ میں فرد واحد میں بھی یہ حرکات ِبدعت نظر آتی تھیں۔ مثلاً ایک صاحب نے دیہات میں گھر بنایا اور چاہا کہ میں وہاں Monk (پیر)بن کر بیٹھ جاؤں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس گھر کو تڑوادیا اور اسے وہاں رہنے سے منع کردیا۔

٭…کوفہ کی جامع مسجد میں حلقۂ ذکر کرنے والوں کوسیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد: 
میں تمہیں کیا کرتے دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولے: ابو عبد الرحمن ! ہم صرف گٹھلیوں پر تکبیر وتہلیل اور تسبیح گن رہے ہیں۔فرمایا: بہتر یہ ہے کہ تم اپنی برائیاں گنو۔ میں تمہارا ضامن بنتا ہوں کہ تمہاری کوئی نیکی ضائع نہیں جائے گی۔ امت محمدﷺ! بہت افسوس ہے تم کتنی جلدی راہ ہدایت سے بھٹک گئے ہو ابھی تو بکثرت صحابۂ رسول تمہارے درمیان موجود ہیں۔ ابھی تو آپ ﷺ کے کپڑے بھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ہی آپ ﷺ کے برتن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے ہیں۔قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم یا تو ایسی ملت پر ہو جو رسول اکرم ﷺ کی ملت سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے یا پھر تم ضلالت وگمراہی کے دروازے کھولنے والے ہو۔وہ کہنے لگے: ابو عبد الرحمن! ہم تو صرف خیر ہی چاہتے ہیں۔فرمانے لگے: خیرکو کتنے چاہنے والے ہیں مگر وہ اسے نصیب نہیں ہوتی۔ یقینا رسول اکرم ﷺ نے ہمیں یہ حدیث ارشاد فرمائی: کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے آگے نہیں جاسکے گا۔ بخدا مجھے نہیں علم، شاید ان کی اکثریت تمہی میں سے ہوسکتی ہے۔ یہ کہہ کر سیدنا ابن مسعود وہاں سے چلے گئے۔ عمرو بن سلمۃ کہتے ہیں: ہم نے ان حلقات کے اکثر لوگوں کو نہروان کی جنگ میں دیکھا وہ ہم پر خوارج کے ساتھ تیر برسا رہے تھے۔(باب کراہیۃ أخذ الرأی۔ سنن الدارمی)

٭…بدعت ، معصیت سے بدتر گناہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدعت شیطان کو سب سے زیادہ پسندہے۔ کیونکہ ایک گناہ گار جانتا ہے کہ وہ گناہگار ہے اور معصیت کا ارتکاب کررہا ہے جبکہ بدعتی یہ سمجھتا ہے کہ وہ مطیع وفرمانبردار ہے اور اطاعت کررہا ہے۔ اس لئے بدعت معصیت سے بری شے ہے۔گناہ گار تو توبہ بھی کرلیتا ہے لیکن بدعتی بہت کم ہی توبہ کرپاتا ہے کیونکہ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ وہ حق پر ہے برخلاف ایک گناہ گار کے ۔ 
امام سفیان ثوریؒ فرمایا کرتے:
البِدْعَۃُ أَحَبُّ إِلَی إِبْلِیْسَ مِنَ الْمَعْصِیَۃِ فَإِنَّ الْمَعْصِیَۃَ یُتَابُ مِنْہَا وَالْبِدْعَۃُ لاَ یُتَابُ مِنْہَا۔(مسند ابن الجعد: ۱۸۸۵، وفتاوی شیخ الإسلام: ۴۷۲؍۱۱) بدعت شیطان ابلیس کو معصیت سے زیادہ محبوب ہے کیونکہ گناہ سے توبہ ہوسکتی ہے مگر بدعت سے نہیں۔
آپ ﷺ کا ارشاد بھی ہے:
إنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی احْتَجَزَ التَّوْبَۃَ عَنْ صَاحِبِ کُلِّ بِدْعَۃٍ۔ (الصحیحۃ: ۱۶۲۰) بے شک اللہ تعالیٰ نے توبہ کو ہر بدعتی سے چھپا رکھا ہے۔

٭…امام حسن بصری فرمایا کرتے:
لاَ تُجَالِسْ صَاحِبَ بِدْعَۃٍ، فَإِنَّہ یُمَرِّضُ قَلْبَکَ۔ (الاعتصام: ۱۷۲؍۱) بدعتیوں کے ساتھ مت بیٹھو کیونکہ یہ تمہارے دل کو مریض کردیں گے۔

اگر اللہ تعالیٰ اہل سنت کو ان بدعتیوں کی ضرر رسانی دور کرنے کے لئے کھڑا نہ کرے تو دین میں فساد برپا ہوجائے جو اہل حرب دشمنوں کے مسلمان ملک پر قابض ہونے سے بھی بڑا ہے۔ کیونکہ موحد لوگ اگرباہوش ومتحرک ہوں تو اہل ایمان کے دلوں میں دین کی جو سچائی ہے بدعتی اسے فاسد نہیں کرسکتے ۔جبکہ اہل بدعت تو دلوں کو ابتداء ہی سے فاسد کردیتے ہیں۔
نوٹ: علمائے سلَف نے اس موضوع پر جو کتابیں لکھیں ان کا نام بھی السُّنَّۃ رکھا۔جن میں ان احادیث کو جمع کیا گیا جو اللہ تعالیٰ کی ذات، اسماء وصفات کو واضح کرتی اوراسے بااختیاربتاتی ہیں۔ایمان بالغیب ، قضاء وقدر میں ایمان کو پختہ کرتی ہیں۔صحابہ رسول کو وہ مقام دیتی ہیں جو اللہ ورسول نے انہیں دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام بخاریؒ، امام ابوداؤدؒ، امام نسائیؒ، امام ابنؒ ماجہ وغیرہم نے اپنی کتب میں کتاب الإیمان، کتاب التوحید اور کتاب السنۃ کے نام سے باب بندی کی ہے۔ اور ابوبکر الأثرم، عبد اللہ بن احمد، ابوبکر الخلال، ابو القاسم طبرانی ، ابوالشیخ اصفہانی اور ابوعبداللہ بن ابی زمینین نے کتاب السنہ کے نام سے کتب لکھیں اور عقیدہ کے مسائل بیان کئے۔شرح السنۃ امام بربہاری کی ہے جس میں عقیدہ کی شرح کی ہے ہے۔ عقیدہ طحاویۃ اور عقیدہ واسطیہ جیسی کتب بھی عقائد کو واضح کرتی ہیں کہ اہل السنۃ کون ہیں؟ کون سا فرقہ ناجیۃ ہے جسے اہل السنۃ والجماعۃ کہا گیا ہے اور کون سا ضالہ۔ یہی علماء اہل السنۃ کہلائے۔

No comments:

Post a Comment

٢٣٥- کیا مرغ یا انڈے کی قربانی جائز ہے.؟

✍🏻مجاہدالاسلام عظیم آبادی سوال-مدعیان عمل بالحدیث کا ایک گروہ مرغ کی قربانی کو مشروع اورصحابہ کرام کا معمول بہ قرار دیتا ہے۔اور ان میں سے ...