Monday, January 21, 2019

حـــدیث رســـول ﷺ -حـــقیقت، اعـــتراضات اور تجـــزیہ(علمائے اصول کے نزدیک سنت)

علمائے اصول کے نزدیک سنت

جب لفظ سنت، قرآن کریم کے ہمراہ استعمال ہو اس سے مرادساری شریعت ہے جوایمانیات، عقائد واحکام اور اخلاق سبھی کو شامل ہے۔جیسے آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
تَرَکْتُ فِیْکُمْ أَمَرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَ مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّتِیْ۔میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں انہیں تھامنے کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے ۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری سنت۔
یہی وہ سنت وشریعت ہے جس کا مفہوم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ لیا تھا: السُّنَّۃُ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ۔ سنت یعنی شریعت ہی اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ہے۔ مرادجو آپ ﷺ نے کہا ، کیا اور برقرار رکھا۔اسے تھامنا ہے۔سنت کے حسن وقبح کے لئے عقل کو قاضی وفیصل بناناغلط اصول ہے۔ 
امام شاطبی رحمہ اللہ کی تعریف سنت دیکھئے:
یُطْلَقُ لَفْظُ السُّنَّۃِ عَلَی مَا جَائَ مَنقُوْلاً عَنِ النَّبِیِّ ﷺ عَلَی الْخُصُوْصِ مِمَّا لَمْ یَنُصَّ عَلَیْہِ فِی الْکِتَابِ الْعَزِیْزِ۔ لفظ سنت کا اطلاق ا س شریعت پر ہے جو بالخصوص آپ ﷺ سے منقول ہو اورجس کی نص کتاب عزیز میں نہ ہو۔ (الموافقات ۴/۳)

رسول اکرم ﷺکو شارع کے مقام پر فائز سمجھ کر انہوں نے پھر سنت کی تعریف یہ کی:
کُلُّ مَا صَدَرَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ مِنْ قَوْلٍ أَو فِعْلٍ أَو تَقْرِیْرٍ مِمَّا یَصِحُّ أَنْ یَکُوْنَ دَلِیْلاً لِحُکْمٍ مِنْ أحْکاَمِ الشَّرْعِ۔آپ ﷺ سے صادر ہونے والی کوئی صحیح چیزخواہ وہ قولی ہو یا فعلی وتقریری، سنت کہلاتی ہے تاکہ وہ کسی بھی حکم شرعی کی دلیل بن سکے۔

اس اعتبار سے شریعت میں سنت رسول کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔جسے انہوں نے درج ذیل تقسیم دی ہے:
۱۔ سنت قولی ۔ اس میں دو قسم کی احادیث شامل ہیں۔
أ۔ قول صریح: 
اس میں آپ ﷺ کا کوئی بھی صریح ارشاد ہو۔ جیسے: مَنْ تَعَمَّدَ عَلَیَّ کَذِباً فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔جس نے عمداً مجھ پر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے۔

ب۔ غیر صریح:
مَا کَانَ لَہُ حُکْمُ الْمُضَافُ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ۔ آپ ﷺ کی طرف منسوب کوئی حکم ہو یہ مرفوع حکمی ہے۔

۲۔ سنت فعلی: 
اس حدیث میں صرف آپ ﷺ کے اعمال کا ذکر ہوتا ہے۔مثلاً نماز، روزہ، حج کے افعال ومناسک وغیرہ۔آپ ﷺ نے یہی چاہا کہ یہ افعال امت کے لئے شریعت بن جائیں۔ حدیث فعلی کی خوبی یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی ذات گرامی کو متحرک اور متصرف باور کراتی ہے۔ بالخصوص وہ حرکت جس سے کسی کی راہنمائی واصلاح مطلوب ہویا تعلیم دینا ہو۔اس کی راہنما ومعلم وحی ہوتی ہے۔رسول اللہ ﷺ کی تمام حرکات بھی اسی لئے ہیں تاکہ دوسرا جان لے کہ شریعت ہم سے یہی کچھ چاہتی ہے۔اسے جاننے کے بعد ہمارے سامنے ذات رسول ﷺ کے متنوع افعال آتے ہیں۔

۳۔سنت تقریری:
اس سے مراد : کسی بات یا فعل پرنبی کریم ﷺ کا سکوت ہویا آپ ﷺ تک ایسی بات پہنچی ہو یا آپ ﷺ نے خوشی محسوس کی یا اسے مستحسن سمجھاہو۔ ابوسعید خدریؓ کی روایت ہے:
أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺ أَتَوا عَلَی حَیٍّ مِنْ أَحْیَائِ الْعَرَبِ فَلَمْ یَقْرُوْہُمْ، فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذَلِکَ إِذْ لُدِغَ سَیِّدُ أَولٰئِکَ، فَقَالُوا: ہَلْ مَعَکُمْ مِنْ دَوَائٍ أَوْ رَاقٍ؟ فَقَالُوا : إِنَّکُمْ لَمْ تَقْرُوْنَا، وَلَا نَفْعَلُ حَتّٰی تَجْعَلُوْا لَنَا جُعْلاً، فَجَعَلُوْا لَہُمْ قَطِیْعاً مِنَ الشَّائِ، فَجَعَلَ یَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَیَجْمَعُ بُزَاقَہُ وَیَتْفِلُ، فَبَرَأَ ، فَأَتَوْا باِلشَّائِ ، فَقَالُوا: لاَ نَأْخُذُہُ حَتّٰی نَسْأَلَ النَّبِیَّ ﷺ فَسَأَلُوْہُ ، فَضَحِکَ ، وَقَالَ: وَمَا أَدْرَاکَ أَنَّہَا رُقْیَۃٌ خُذُوْہَا وَاضْرِبُوْا لِیْ بِسَہْمٍ۔ (متفق علیہ)چند صحابہ رسول، کسی قبیلہ میں گئے جنہوں نے ان کی میزبانی تک نہ کی۔ اس دوران قبیلے کے سربراہ کو سانپ نے ڈسا ۔ وہ آئے اور ان سے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی دوایا دم ہے۔ صحابہ نے جواباً کہا: تم نے ہماری عزت افزائی نہیں کی تھی اب ہم یہ کام اس وقت کریں گے جب ہمارے لئے کوئی اجرت یا حصہ مقرر کردوگے ۔انہوں نے بکریوںکا ایک چھوٹاریوڑ دینے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ ایک مسلمان نے سورہ فاتحہ پڑھی۔ لعاب سمیت اس بیمار پر دم کیا، وہ ٹھیک ہوگیا۔ بکریاں انہوں نے مسلمانوں کو دیں ۔ صحابہ میں کسی نے کہا: ہم یہ نہیں لیں گے جب تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ سے پوچھ نہ لیں۔ آپ ﷺ سے جب پوچھا گیاتو آپ مسکرائے اور فرمایا: تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ ایک دم ہے۔ ان بکریوں کو لو اور میرا حصہ بھی اس میں رکھو۔

سنت تقریری کے تحت مزید درج ذیل بھی آتا ہے:
۱۔ آپ ﷺ کے زمانہ میں ہی یہ فعل ہوا ہو اور مشہور ہو۔ اس جیسے فعل کا مخفی رہنا عادۃً محال ہو۔ جیسے: سیدنا معاذ ؓ کا آپ ﷺ کے ساتھ نماز عشاء پڑھنا اور پھر بعد میں اپنے قبیلہ میں جا کر لوگوں کو وہی نماز پڑھانا۔ جن میں وہ متنفل ہوتے اور نمازی مفترض۔ ان کا یہ عمل رسول اللہ کے علم میں تھا اور آپ ﷺ نے ہی متنفل امام کے پیچھے مفترض نمازیوں کی نماز کو جائز قرار دیا تھا۔خواہ امام ومقتدی کی نیتیں ایک دوسرے سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔(متفق علیہ) یا بعد از جماعت فجر صحابی کی رہ گئی دوسنتوں کا آپ ﷺ کے سامنے ہی پڑھنا اور اس کی وضاحت کے بعدآپ ﷺ کا خاموش رہنا۔

۲۔ آپ ﷺ کے زمانے میں ہی وہ فعل ہوا ہو مگر عادۃً وہ فعل شہرت اختیار نہ کرسکا ہو۔ نیز یہ بھی معلوم نہ ہوکہ آیا آپ ﷺ کو بھی اس کا علم ہے یا نہیں؟ بعض علماء اس فعل کو حجت نہیں سمجھتے جب کہ دوسرے اسے حجت سمجھتے ہیں ہاں اگر کوئی اس کے خلاف دلیل مل جائے تو اور بات ہے ورنہ اللہ تعالیٰ تو مطلع کرنے والا ہے اور جبریل امین آپ ﷺ پر شریعت ہی لے کر نازل ہوتے تھے۔

ان دونوں اقوال میں یہ قول زیادہ صحیح ہے کہ آپ ﷺ کا یہ فعل حجت ہے۔ صحابہ کرام کے حالات کا ادراک آپ ﷺ کو ہوتا تھا۔ وہ خود بھی جانتے تھے کہ جب تک قرآن اتر رہا ہے کسی غلط بات پر اڑنا مناسب نہیں خواہ اس کی اطلاع اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو نہ دیں۔
مثلاً: سیدنا ابن عمرؓ فرماتے ہیں:
کُنَّا نَتَّقِی کَثِیراً مِنَ الْکَلامِ وَالاِنْبِسَاطِ إِلَی نِسَائِنَا عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ مَخَافَۃً أَنْ یَنْزِلَ فِیْنَا اْلقُرْآنَ فَلَمَّا مَاتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ تَکَلَّمْنَا۔(مسند احمد ۹؍۲۱۳، صحیح بخاری: ۴۸۹۱)ہم اپنی بیویوں سے زیادہ گفتگو اور ہنسی دل لگی کرنے سے باز رہتے تھے اس ڈر سے کہ کہیں ہمارے بارے میں قرآن نہ اتر آئے۔ جب آپ ﷺ کی وفات ہوگئی پھر ہم بولنے لگے۔ 

۳۔زمانہ تشریع میں لوگوں کے ہاں کوئی عمل یا فعل عادۃًمعروف ہواور شریعت نے اس بارے میں کوئی امر ونہی نہ کیا ہو۔ تو ایسا فعل بھی آپ ﷺ کی طرف سے کوئی حکم نہ ہونے کے سبب تقریری ہوگا۔ جیسے: لوگ گھوڑے پالتے تھے مگر کیا وہ ان کی زکاۃ نکالتے تھے؟ کوئی ایسا مسئلہ سامنے نہیں آیا ۔اگر وہ ایسا کرتے تو یقیناً یہ عمل صحابہ سے مخفی نہ ہوتا۔ لہٰذا جب اس مسئلہ کا کوئی حکم ہی نہیں تو سنت یہی ہوئی کہ ان میں زکاۃ نہیں۔

٭… ایک اصولی عالم اسی سنت سے ہی قاعدے اور اصول بناتا ہے تاکہ مجتہدین استدلال واستنباط کے وقت ان سے کام لیں۔مثلاً: اصولی کا یہ کلیہ ۔ الأمْرُ یَدُلُّ عَلَی الْوُجُوبِ۔ امر وجوب پر دلالت کرتا ہے یا النَّہْیُ یَقْتَضِی الْفَسَادَ أَوِ التَّحْرِیْمَ ۔ کہ نہی فاسد ہونے یا حرام ہوجانے کا تقاضا کرتا ہے۔

٭…علماء اصول کے نزدیک شریعت کے متفق علیہ ادلہ جن سے فقہی احکام مستنبط ہوتے ہیں چار ہیں: الکتاب ، والسنۃ، الإجماع اور القیاس۔ اس لئے اصولی علماء دو قسم کے ہیں علماء اصول فقہ اور علماء عقیدہ۔

٭…فقہ واصول فقہ میں یہ بات بھی موضوع بحث ہے کہ قرآن کریم تو سنت کو منسوخ کرتا ہے مگر کیا سنت، قرآن کو منسوخ کرسکتی ہے؟ بعض لوگ اسے سخت خیالی سمجھتے ہیں مگر یہ بحث کوئی نئی نہیں بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ سے قبل کی ہے۔ دلائل یہی بتاتے ہیں کہ سنت ثابتہ قرآن کے احکام کو منسوخ کرسکتی ہے۔

امام شافعیؒ سمیت بہت سے ائمہ فقہاء کا کہنا ہے: حکمت، قرآن کریم کا وہ فہم ہے جو رسول اکرم ﷺ کو بذریعہ وحی حاصل ہوا جس کا تعلق آپ ﷺ کے قول وفعل اور تقریر سے ہے۔جو سنت رسول ﷺہے۔جیسے لقمان علیہ السلام کو حکمت عطا ہوئی جسے کتاب مقدس پڑھنے کے بعد اللہ نے انہیں نصیب فرمائی۔ انہوں نے اس کی نصیحت اپنے بیٹے کو بھی فرمادی۔یہی ان کی سنت تھی۔ جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑے منفرد انداز میں کیا ہے۔اس حکمت میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی آگاہی پر یقین، شرک سے نفرت، تکبر و غرور سے دوری، ذاتی اصلاح اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین ہی تھی۔

No comments:

Post a Comment

٢٣٥- کیا مرغ یا انڈے کی قربانی جائز ہے.؟

✍🏻مجاہدالاسلام عظیم آبادی سوال-مدعیان عمل بالحدیث کا ایک گروہ مرغ کی قربانی کو مشروع اورصحابہ کرام کا معمول بہ قرار دیتا ہے۔اور ان میں سے ...