Thursday, October 25, 2018

1025- کیا حضرت آدم علیہ السلام نے نبی کریم ﷺ کا وسیلہ مانگا تھا؟

بعض علماء کرام کو یہ کہتے ہوئے سنا ہیکہ جب حضرت آدم علیہ السلام سے غلطی ہوئی اور وہ زمین پر بھیج دیے گئے تب انہوں نے بہت دعائیں کی لیکن ان کی کوئی دعا قبول نہیں ہوئی، لیکن جب نبی کریم ﷺ کا واسطہ انہوں نے دیا تو ان کی دعا قبول ہوگئی، کیا یہ بات درست ہے.؟

الحمدللہ

امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
حدثنا أبو سعيد عمرو بن محمد بن منصور العدل، ثنا أبو الحسن محمد بن إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، ثنا أبو الحارث عبد الله بن مسلم الفهري، ثنا إسماعيل بن مسلمة، أنبأ عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، عن أبيه، عن جده، عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لما اقترف آدم الخطيئة قال: يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي، فقال الله: يا آدم، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه؟ قال: يا رب، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك، فقال الله: صدقت يا آدم، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك[المستدرك على الصحيحين للحاكم 2/ 672]

حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے جب وہ لغزش ہوگئی (جس کی وجہ سے جنت سے دُنیا میں بھیج دئیے گئے تو ہر وقت روتے تھے اور دعا و استغفار کرتے رہتے تھے) ایک مرتبہ آسمان کی طرف منہ کيا اور عرض کیایا اللہ محمد (ﷺ) کے وسیلہ سے تجھ سے مغرفت چاہتا ہوں وحی نازل ہوئی کہ محمدﷺ کون ہیں؟ (جن کے واسطے سے تم نے استغفارکی) عرض کیا کہ جب آپ نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا تها لاَ اِله اِلاً اﷲ مُحَمًدُ رَسُولُ اﷲ تو میں سمجھ گیا تھا کہ محمدﷺ سے اونچی ہستی کوئی نہیں ہے جس کا نام آپ نے اپنے نام کے ساتھ رکھا، وحی نازل ہوئی کہ وہ خاتم النبیینﷺ ہیں تماری اولاد میں سے ہیں اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کیے جاتے

یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے تفصیل ملاحظہ ہو:

امام ذہبی رحمہ اللہ مستدرک کی تلخیص میں اس روایت کے بارے میں کہا:
بل موضوع
بلکہ یہ روایت موضوع اورمن گھڑت ہے[المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 2/ 672]

اس کی سند میں”عبد الله بن مسلم الفهري“ موجود ہے ۔
اوریہ کذاب اور بہت بڑا جھوٹاشخص ہے۔

امام ذہبی رحمہ اللہ نے میزان میں عبداللہ بن مسلم الفہری کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی اس روایت کوجھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا:
عبد الله بن مسلم ، أبو الحارث الفهري.روى عن إسماعيل بن مسلمة ابن قعنب، عن عبد الرحمن بن يزيد بن سلم خبرا باطلا فيه: يا آدم لولا محمد ما خلقتك.رواه البيهقى في دلائل النبوة.
عبداللہ بن مسلم ،ابوالحارث الفہری،اس نے اسماعیل بن مسلمہ ابن قعنب ،عن عبدالرحمن بن یزید بن اسلم سے ایک جھوٹی روایت بیان کی ہے جس میں ہے کہ اے ادم اگر محمدنہ ہوتے تو میں تمہیں پیدانہ کرتا ،اسے بیہقی نے دلائل النبوہ میں روایت کیا ہے[ميزان الاعتدال للذهبي: 2/ 504]

حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی یہ بات لسان المیزان میں نقل کی ہے اور کوئی تعاقب نہیں کیا ہے دیکھئے:[لسان الميزان لابن حجر: 3/ 359]

اس کی سند میں ایک اور راوی ”عبد الرحمن بن زيد بن أسلم“ ہے ۔
اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے چنانچہ:

ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، وقد أجمعوا على ضعفه
عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔[إخبار أهل الرسوخ في الفقه والتحديث بمقدار المنسوخ من الحديث ص: 49]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے:
قلت: عبد الرحمن متفق على تضعيفه.
میں (ابن حجر) کہتاہوں کہ عبدالرحمن بن زید کے ضعیف ہونے پراتفاق واجماع ہے[إتحاف المهرة لابن حجر: 12/ 98]

بے چارے دیوبندی حضرات گلی گلی چلاتے ہیں کہ اہل حدیث اجماع نہیں مانتے اور یہاں جس راوی کے ضعیف ہونے پر اجماع ہےاس کی روایت سے بھی استدلال کرتے نہیں شرماتے ۔اور اس اجماع کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔

یہ راوی بالاجماع ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ جھوٹی اور من گھرٹ احادیث بھی روایت کرتا تھا چنانچہ:

امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه
عبدالرحمن بن زید بن اسلم ،اس نے اپنے والد سےموضوع اور من گھڑت احادیث بیان کی ہیں اور اہل فن میں سے جو بھی ان احادیث پر غور کرے گا اس سے سامنے یہ واضح ہوجائے گا کہ ان احادیث کے گھڑنے کی ذمہ داری اسی پر ہے[المدخل إلى الصحيح ص: 154]

امام حاکم رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوا کہ یہ ”عبدالرحمن بن زید بن اسلم “ بھی حدیث گھڑنے والا راوی ہے۔

لہٰذا اس حدیث کے موضوع اور من گھڑت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے واضح طور پر اسے موضوع اور من گھڑت کہاہے جیساکہ اوپر حوالہ دیا گیا

واللہ اعلم

No comments:

Post a Comment

٢٣٥- کیا مرغ یا انڈے کی قربانی جائز ہے.؟

✍🏻مجاہدالاسلام عظیم آبادی سوال-مدعیان عمل بالحدیث کا ایک گروہ مرغ کی قربانی کو مشروع اورصحابہ کرام کا معمول بہ قرار دیتا ہے۔اور ان میں سے ...