Wednesday, October 3, 2018

1019-مومن کی صفات


س-آپ سے گزارش ہے کہ مومنین کے صفات کے بارے میں بتلائیں.؟

الحمدللہ

(تفسیر سورہ مومنون 1-11)
قرآن پاک میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے
قَدۡ أَفۡلَحَ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ ١
"یقینن کامیاب ہو گئے وہ لوگ جو ایمان لائے"(حوالہ مومنون-1)
اس آیت میں اللہ رب العزت نے مومنوں کو بشارت دی،خوشخبری دی کامیابی کی مطلب (فلاح کی)، (آخرت میں نجات کی)، (آخرت کی آسانی کی)، (آخرت میں نعمتوں کی) اور (جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقامات کی)-
تو یہاں اللہ رب العزت اعلان کر رہے ہیں، وعدہ کر رہے ہیں کہ "کامیاب ہوئے وہ لوگ جو ایمان لائے"
تو غور کریں کہ اللہ رب العزت کس خوبصورتی کے ساتھ اس سورت کا آغاز فرما رہے ہیں کہ "کامیاب ہوئے وہ لوگ جو ایمان لائے"تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ ایمان کی اہمیت کیا ہے کہ وہ جو حق کہ ساتھ ایمان لائے تو وہ یقینن (دنیاوآخرت)میں کامیابی کے حقدار ہیں اب وہ جو کامیاب ہوئے ان میں ہمارا شمار کیسے ہو گا-
مثال کے طور پر
ہم ایک آفس میں کام کرتے ہیں وہاں پوری مینیجمنٹ ہے ہم سوچتے ہیں کہ جو ہمارا سینئر(عہدے میں ہم سے بڑا)ہے ہم اس عہدے تک کیسے پہنچیں تو ہم وہ کام کرتے ہیں اسکی کوشش کرتے جس سے انکو یہ عہدہ ملا-
اب ہم واپس آتے ہیں اس آیت پر جس میں اللہ رب العزت ارشاد فرما رہیں ہیں ان لوگوں کا جن کے متعلق ہمیں جاننا ہے-درحقیقت یہ آیتیں نبی کریمﷺ کے دور میں صحابہ کرام کیلئے نازل ہوئیں کیونکہ صحابہ کرام ہی وہ پہلی جماعت تھی جو ایمان والے تھے تو انہیں اللہ پاک خوشخبری کس چیز کی دے رہے ہیں کہ "کامیاب ہوئے وہ لوگ جو ایمان لائے" تو پھر کیوں نہ ہم بھی ایمان والے بن جائیں ویسے جیسا کہ ہونے کا حق ہے مطلب نام نہاد نہیں جیسا کہ ہم میں سے اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایمان کے دعوے دار ہوتے ہیں یعنی مسلمان کے گھر پیدا ہوئے اور کہا کہ ہم ایمان والے ہیں
لیکن درحقیقت ایمان والا وہ ہے جس میں کچھ خصلتیں،کچھ خصوصیات اور کچھ صفتیں ہوتی ہیں بغیر اس کے کوئی بھی شخص کامیاب نہیں ہو سکتا-
مثال کے طور پر
ایک تالا ہے اور اسکی چابی ہے تو کیا آپ اس چابی کو بغیر کسی دانت،گڑے یا ڈیزائن کے تصور کر سکتے ہیں جس کے تحت تالا کھل سکتا ہے-
اسی طرح ایمان کے بھی تقاضے ہوتے ہیں جن کے بارے اللہ رب العزت نے بشارت دے دی کہ
"کامیاب ہوئے وہ لوگ جو ایمان لائے"
اب ہم جانتے ہیں کہ کون ہیں وہ ان کی صفتیں ان کی خصوصیات کیا ہیں جس کے تحت انہیں خوشخبری دی جا رہی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ ایمان کسے کہتے ہیں اب ہم اگر اس پر تفصیل کریں گے تو کافی لمبا ہو گا تو مختصر کر کہ ایمان لانا یعنی
"اللہ پر اسکے فرشتوں پر اسکی کتابوں پر اسکے رسولوں پر اور آخرت پر ایمان لائے اور تقدیر پرجیسا کہ اسکا حق ہے"
ان سب باتوں پر جو ایمان رکھتا ہے وہی ایمان والا ہےاور ایمان کے تقاضے اللہ رب العزت بتاتے ہیں اسکی صفت کا ہم آگے مطالعہ کریں گےپہلے یہ بتادوں کہ قرآن کا ایک اسلوب ہے طریقہ کار ہے کہ جب بھی کامیاب لوگوں کی زندگی کا تزکرہ ہو گا وہی ناکامیاب لوگوں کا بھی ہو گا جب بھی جنت کا ذکر آئے گا تو دوزخ کا بھی آئے گا اسی طرح قرآن جب بھی کسی چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اسے خالی نہیں چھوڑتا اسکی تفصیل بھی بیان کرتا ہے اسی طرح جیسے اس سورت کی شروعات ہے
قَدۡ أَفۡلَحَ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ ١
"یقینن کامیاب ہو گئے وہ لوگ جو ایمان لائے"(حوالہ مومنون-1)
اور اسی سورت کے آخر میں آیا ہے
ۥ لَا يُفۡلِحُ ٱلۡكَٰفِرُونَ ١١٧
"اورکافر کبھی کامیاب نہیں ہوں گے" (حوالہ مومنون -117)
اب دیکھیں قرآن نے اپنا طریقہ کار مکمل کر دیا-صرف اسلیئے تاکہ ہم اچھے سے سمجھ جائیں اب وہ کون سا تقاضا ہے وہ کون سی صفت ہے جس سے ہم ایمان کے متعلق جانیں اب خود اگلی آیت اسکی وضاحت کرتی ہے
آئیے سب سے پہلے پہلی صفت پر جاتے ہیں
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے
ٱلَّذِينَ هُمۡ فِي صَلَاتِهِمۡ خَٰشِعُونَ ٢
"جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں" (حوالہ مومنون-2)
اب یہاں صرف نماز کا نہیں کیا گیا لیکن ایسی نماز جس میں خشوع ہو-
خشوع کے بہت معنی ہیں جو علماءکرام بتاتے ہیں
1۔اللہ سے ڈرتے ہیں مطلب نماز کو اللہ سے ڈرتے ہوئے پڑھتے ہیں کہ میرے رب نے اس کو فرض کیا ہے اور کہیں یہ مجھ سے چھوٹ نہ جائے
2۔سکون کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں جلد بازی میں نماز نہیں پڑھتے ہیں
3۔دل ودماغ،ہاتھ پاؤں یہاں تک کہ پورا کا پورا جسم مکمل طور پر نماز میں ہوتا ہے اور خوامخواہ کے خیالات دل میں نہیں لاتے سوائے وسوسے کے جو شیطان کی طرف سے ہوتا ہے
4۔جیسے نماز بتائی گئی ویسے ہی پڑھتے ہیں
اس لئے اس آیت میں عام نہیں خاص وہ نماز جو خشوع والی ہو کا ذکر آیا ہے اب اس (خشوع) نماز کی اہمیت ہمیں کیسے معلوم ہو گی تو صحابہ کرام کی زندگی ہمارے لئے جیتی جاگتی مثال ہے کیونکہ صحابہ جو تھے وہ ایسے خشوع سے نماز پڑھتے تھے جس کی کوئی انتہا نہیں اور وہ اپنی نماز میں خیالات تو دور ظاہری اثرات بھی نہیں لیتے تھے
اب صحابہ کرام کی زندگی سے ایک واقعہ سناتا ہوں
نبی کریم ﷺ نے دو صحابہ سے کہا کہ فلاں پہاڑ پر جاؤ انتظار کرو کہ دشمن نہ آجائے دونوں نے طے کیا کہ پوری رات جاگ کر کیا کریں گے آدھی رات تم جاگ لو آدھی میں تو ایک نے کہا ٹھیک ہے اور اس دوران جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوئے کیونکہ کوئی آیا نہیں انہوں نے سوچا اگر دشمن آ بھی گیا تو آہٹ آ جائے گی دیکھ لوں گا تو جب نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو ایک دشمن نے تیر چلایا اور وہ صحابی کے پاؤں میں جا لگا اس کے بعد بھی آپ نے نماز مکمل کی اور نماز کے بعد اپنے ساتھی کو اٹھایا اور کہا کہ دشمن آگیا ہے تو ساتھی نے کہا تم نے پہلے کیوں نہیں جگایا مجھے جب تیر لگا تو انہوں نے کہا کہ میں سورہ کہف کی تلاوت کر رہا تھا دل نہیں کیا کہ تلاوت کو توڑ دوں اس لئے نماز کو جاری رکھا جب تیر پاؤں میں لگا-
اس واقعہ سے اندازہ لگائیں کہ کس خشوع سے صحابہ نماز پڑھتے تھے کہ پاؤں میں تیر لگنے کے باوجود بھی نماز مکمل کی اس کے برعکس اگر ہمیں چھوٹی سی چیونٹی بھی کاٹ لے تو ہم نماز چھوڑ دیتے ہیں
ایک اور واقعہ بتاتا ہوں کہ ایک صحابی کو مشرکین نے گرفتار کر لیا اور طے کیا کہ انہیں پھانسی دے دی جائے تو انہوں نے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دیں تو اجازت کے بعد انہوں نے اپنی نماز کو جلدی میں پڑھا اور نماز سے فارغ ہو کر کہا کہ نماز جلدی اس لئے پڑھی کہ کہیں تم یہ نہ سمجھو کہ موت کہ ڈر سے لمبی کر رہا ہوں
اس واقعہ کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ پتہ ہونے کے باوجود کہ پھانسی کا حکم تو ہو گیا تھا پھر بھی نماز کو ضروری سمجھا اسے خشیت کہتے ہیں اور یہ فرض نماز نہیں تھی بلکہ شوق تھا کہ موت سے پہلے بھی نماز پڑھتے اور صحابہ کرام اکثر راتوں کو جاگتے نوافل اور عبادت کا اہتمام کرتے
تو صحابہ پہلے مخاطبین تھے جب اللہ نے کہا "کامیاب ہوئے وہ لوگ جو ایمان لائے" اور پہلی صفت بتائی کہ "جو نماز خشوع سے پڑھتے ہیں" اس لئے ہمیں صحابہ کی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہئیے تاکہ پتہ چلے کہ خشوع کسے کہتے ہیں بیشک نبی کریم ﷺ کی ساری زندگی ہمارے پاس ہے لیکن باوجود اس کے ہمیں صحابہ کرام کی زندگی کا بھی مطالعہ کرنا چاہئیے
ایک اور واقعہ بتاتا ہوں حاتم طائی کے بیٹے کا کہ نماز کی محبت ان کے دل میں کیسی تھی وہ کہتے تھے کہ چالیس سال میں ایک بھی وقت ایسا نہیں آیا کہ جب میں اذان سے پہلے مسجد میں نہ گیا مطلب ایسی محبت تھی نماز کی ان کے دل میں کے اذان سے پہلے مسجد میں ہوتے-
ایک اور واقعہ بتاتا ہوں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حوالے سے کہ وہ ایسی نماز پڑھتے تھے کہ جو لوگ دیکھتے تھے وہ کہتے تھے کہ شاید بھول گئے ہیں جو نماز میں اتنی دیر کھڑے ہیں یعنی اتنا لمبا قیام کرتے وہ نماز میں-
اور کچھ صحابہ کہ تعلق سے آتا ہے کہ وہ اتنی لمبی نماز پڑھتے کہ گویا ایسا معلوم ہوتا جیسے کہ مسجد کا ایک حصہ ہوں
اب ان واقعات سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ خشوع کسے کہا گیا کیونکہ پہلی صفت کیا ہے ایمان والوں کی یعنی "جو خشوع سے نماز پڑھتے ہیں"
اب دوسری صفت جس کے بارے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے
وَٱلَّذِينَ هُمۡ عَنِ ٱللَّغۡوِ مُعۡرِضُونَ ٣
"اور وہ جو لغویات سے منہ موڑتے ہیں"(حوالہ مومنون-3)
اصل میں لغویات ان باتوں کو کہتے ہیں جن کا دین و دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس سے دین و دنیا اور آخرت کا خسارہ ہوتا ہے اور اس کی عام مثال کیا ہے جس میں ہم میں سے اکثر لوگ پڑے ہیں
جیسا کہ اکثر لوگ شام کے وقت ہوٹل میں یا اور کسی جگہ بیٹھتے ہیں اور پھر لغویات(فضول باتیں) شروع کر دیتے ہیں جیسا کہ دوسروں کے بارے برا بھلا کہنا غیبت کرنا ایسی بہت سی باتیں کرتے ہیں جن کا نہ تو دین سے کوئی تعلق ہو تا ہے اور نہ دنیا سے ہاں اگر برائی کی بات اس کے سامنے کرے جو اصلاح کی طاقت رکھتا ہے تو پھر جائز ہے لیکن برعکس اس کے جو طاقت نہیں رکھتا تو لغویات ہیں اور جو اس سے منہ موڑتے ہیں ان ہی کی یہ صفت بیان کی گئی ہے اور انہی کو کامیابی کی بشارت دی ہے
اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں
"جس نے لغو سے اپنے آپ کو بچا لیا اس نے دین مکمل کر لیا"
اور غیبت کی وجہ سے بہت سی لڑائیاں ہمارے معاشرے میں بڑھ رہی ہیں اور مومن کی صفت یہی ہے کہ اس کا لغویات سے کوئی تعلق نہیں اور یہ صفت اس لئے ہے کے اگر ہماری زبان سے کوئی لفظ نکلا تو اسی وقت لکھ دیا گیا
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے
وَإِنَّ عَلَيۡكُمۡ لَحَٰفِظِينَ ١٠ كِرَامٗا كَٰتِبِينَ ١١  يَعۡلَمُونَ مَا تَفۡعَلُونَ ١٢
"بیشک تم پر کچھ نگہبان ہیں معزز لکھنے والے جانتے ہیں جو کچھ تم کرو" (حوالہ الانفطار 10-12)
"ایک مرتبہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اللہ کے رسول ﷺ نے بہت ساری باتیں بتائیں دین کے متعلق سے اور آخر میں کہا کہ سب سے اہم چیز ان سب میں سے تیری زبان ہے اس کا خیال رکھنا"(ریاض الصالحین حدیث نمبر 12)
اسی طرح ایک صحابی نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ میرے لئے سب سے خطرناک چیز کیا ہے آپ ﷺ اپنی زبان نکالی اور ہاتھ میں پکڑ کر کہا یہ تیری زبان
اسی طرح ایک اور جگہ آیا
"ہم سے محمد بن ابوبکر مقدمی نے بیان کیا ، کہا ہم سے عمر بن علی نے بیان کیا ، انہوں نے  ابوحازم سے سنا ، انہوں نے سہل بن سعد ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” میرے لیے جو شخص دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (شرمگاہ) کی ذمہ داری دیدے میں اس کے لیے جنت کی ذمہ داری دیتا ہوں ۔"(صحیح بخاری حدیث نمبر 6474)
اس لئے مومن کی دوسری صفت یہی بیان کی گئی "اور وہ جو لغویات سے منہ موڑتے ہیں"
اب تیسری صفت جس کے بارے اللہ رب العزت فرماتے ہیں
وَٱلَّذِينَ هُمۡ لِلزَّكَوٰةِ فَٰعِلُونَ ٤
"اور وہ زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں" (حوالہ مومنون-4)
یہاں پہلی بات تو آپ کو میں یہ بتا دوں کہ یہ سورہ مکی ہے اور مکہ میں زکوٰۃ فرض نہیں ہوئی تھی زکوٰۃ دو ہجری میں ہجرت کے بعد دوسرے سال فرض ہوئی لیکن علمائے کرام کے نزدیک یہاں دو معنی ہیں
1۔وہ مال جو اللہ نے آپ کو دیا آپکی ملکیت ہے اس میں سے آپ لوکوں میں تقسیم کرتے ہیں یعنی زکوٰۃ
2۔مفسرین کے مطابق کیونکہ یہ آیت مکی ہے اس لئے اس کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ وہ اپنی نفسوں کو پاک کرنے والے ہوتے ہیں
کیونکہ زکوٰۃ کا لفظ زکی سے آتا ہے جس کے معنی (پاک کرنا)ہوتا ہے اس طرح اس کے دو معنی ہیں ایک بڑھانا دوسرا پاک کرنا جیسا کہ ہم مال کی زکوٰۃ دیتے ہیں تو اس سے ہمیں دو فائدے ہوتے   ہیں ایک تو مال بڑھتا ہے دوسرا پاک ہوتا ہے دونوں کام ایک ہی ساتھ ہو جاتے ہیں اس لئے دونوں ہی معنی ہو سکتے ہیں ایک زکوٰۃ دینا دوسرا اپنی نفسوں کو پاک کرنا-
احادیث مبارکہ ہے
" ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا کہ ہم سے  عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے اپنے والد سے بیان کیا ‘ ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جسے اللہ نے مال دیا اور اس نے اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی تو قیامت کے دن اس کا مال نہایت زہریلے گنجے سانپ کی شکل اختیار کر لے گا ۔ اس کی آنکھوں کے پاس دو سیاہ نقطے ہوں گے ۔ جیسے سانپ کے ہوتے ہیں ‘ پھر وہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں سے اسے پکڑ لے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال اور خزانہ ہوں ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی ” اور وہ لوگ یہ گمان نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کچھ اپنے فضل سے دیا ہے وہ اس پر بخل سے کام لیتے ہیں کہ ان کا مال ان کے لیے بہتر ہے ۔ بلکہ وہ برا ہے جس مال کے معاملہ میں انہوں نے بخل کیا ہے ۔ قیامت میں اس کا طوق بنا کر ان کی گردن میں ڈالا جائے گا ۔ “ ... حدیث متعلقہ ابواب: زکاۃ نہ دینے والوں کا روپیہ پیسہ قیامت کے دن گنجا سانپ بن کر انکو ڈسے اور کاٹے گا ۔ بغیر زکوٰۃ والا مال سانپ بن کر ڈسے گا" (حوالہ صحیح بخاری حدیث نمبر 1403)
یہ وہ خزانہ اور مال ہو گا جس کی زکوٰۃ نہ دی ہو گی اور اس سانپ کے تعلق سے ایک روایت میں آتا ہے کہ یہ اونٹ کے برابر بڑا ہو گا اور جب یہ ایک بار ڈسے گا تو چالیس سال تک اس کی تکلیف برداشت کرنی وہ گی
اب وہ جو معنی نفسوں کو پاک کرنے والا بتایا گیا ہے اس کے لئے آپ خود سوچ اور فکر کریں کہ آپ میں کیا کیا برائیاں ہیں کیا غیبت کرتے ہیں جھوٹ بولتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں اس طرح کی بہت سی برائیاں ہیں جو ہمیں خود میں ڈھونڈھ کر اپنی اصلاح کرنی ہے تاکہ ہم اپنی نفسوں کو پاک کر سکیں-
اب چوتھی صفت کے بارے اللہ رب العزت فرماتے ہیں
وَٱلَّذِينَ هُمۡ لِفُرُوجِهِمۡ حَٰفِظُونَ ٥
"اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں"(حوالہ مومنون-5)
ایک زمانے میں شرمگاہ سے مراد زنا تھا اور مفسرین بھی یہی تراجم،ترجمے کرتے تھے اور آج کے دور میں ہم جانتے ہیں کہ بہت سے گناہ شرمگاہ کے ذریعے کئے جا رہے ہیں اور مفسرین اس بارے میں کہتے ہیں
1۔وہ جو میاں بیوی کرتے ہیں مگر حقیقت میں میاں بیوی نہیں ہوتے یعنی (زنا)
2۔مرد کا مرد سے زنا
اسی لئے مومن کی صفت اپنی سرمگاہوں کی حفاظت کرنا ہے
جیسا کہ اوپر ایک حدیث بتائی تھی
"جو شخص دو چیزوں کی گواہی لے لے کہ اس نے اس کا غلط استعمال نہیں کیا میں اسے جنت کی گواہی دیتا ہوں ایک زبان اور دوسری شرمگاہ"(حوالہ صحیح بخاری حدیث نمبر 6474)
اس لئے شرمگاہ کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کا پردہ اس کا صحیح استعمال مومن کی صفت ہے
جیسا کہ اللہ رب العزت اگلی آیت میں فرماتے ہیں
إِلَّا عَلَىٰٓ أَزۡوَٰجِهِمۡ أَوۡ مَا مَلَكَتۡ أَيۡمَٰنُهُمۡ فَإِنَّهُمۡ غَيۡرُ مَلُومِينَ ٦
"مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں"(حوالہ مومنون-6)
فَمَنِ ٱبۡتَغَىٰ وَرَآءَ ذَٰلِكَ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡعَادُونَ ٧
تو جو ان دو کے سوا کچھ اور چاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں" (حوالہ مومنون-7)”

شرعی باندیوں مطلب (لونڈیوں) اس آیت میں اللہ رب العزت شرمگاہ کا صحیح استعمال بتا رہے ہیں کہ وہ کیا ہے یعنی بیویوں اور لونڈیوں پر شرمگاہ کے استعمال میں کوئی ملامت نہیں-اور یہ بھی کہہ دیا کہ جتنا حکم ہوا اتنا ہی استعمال کرے نہ کہ اس کے علاوہ جو کرے گا تو وہ حد سے بڑھ جائے گا-
اب لونڈیوں کے متعلق نعوذ باللہ ویسٹرن کا کہنا ہے کہ اسلام یہ کیسا حکم دے رہا ہے وہ لونڈیاں (رکھیل) کو کہتے ہیں اللہ رحم کرے وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ سسٹم تو بہت سے ممالک میں ہے اور اسلام بھی اس کی اجازت دے رہا ہے
میں یہاں واضح کر دوں یہ سسٹم اس وقت تھا جب غلامی کا دور تھا اسلام نے غلامی ختم کی اور اس وقت غلامی سے ہی بہت سے لوگ سسٹم چلاتے تھے اور اگر ایک ہی دم سے اسے ختم کر دیا جاتا تو سب گڑ بڑ ہو جاتا لیکن اسلام نے ایسا طریقہ نکالا کہ غلام آزاد بھی ہوا اور کسی کو سمجھ بھی نہ آئی مثال کے طور پر کفارے کے لئے غلام آزاد کرو قتل کر دیا تو غلام آزاد کرو فلاں چیز کے لئے غلام آزاد کرو غلام آزاد کرنے والوں کا اللہ کے ہاں یہ مقام ہے جس نے غلام آزاد کیا اللہ اس کو بخش دے گا یہ طریقہ اسلام نے متعارف کرایا اور لوگوں نے غلام آزاد کرنا شروع کو دئیے حالانکہ جو ایک نسل نبی کریم ﷺ کے زمانے میں باقی تھی اس کے بعد صحابہ کرام اور تابعین کے زمانے تک غلامی عرب سے ختم ہو چکی تھی بلکہ تابعین کے زمانے میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے باپ غلام تھے اور بچے آزاد جیسا کہ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ یہ حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ غلام روایت کرتے ہیں یعنی آزاد ہو گئے تھے تو یہ بھی دیکھیں کہ غلام احادیث روایت کر رہے ہیں
اور اسلام کی نظر میں کوئی غلام نہیں مطلب کہ اللہ کے نزدیک تقوی(پرہیزگار)ہی سب کچھ ہے
إِنَّ أَكۡرَمَكُمۡ عِندَ ٱللَّهِ أَتۡقَىٰكُمۡۚ
"بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے"(حوالہ الحجرات-13)
یہ سب اس لئے جو اسلام کے متعلق غلط نظریہ رکھتے ہیں اسلام ایک پریکٹیکل مذہب ہے اس میں کوئی بیوقوفانہ فلسفے نہیں ہیں-
اور جہاں تک لونڈیوں کا سوال ہے لونڈیاں بھی وہ جو خود کی ملکیت میں وہ نہ کہ پارٹنر شپ میں حاصل کیے غلام اور یاد رکھیں ان کے ساتھ شرمگاہ کے استعمال کے متعلق سخت قائدے ہیں
جب ایک انسان اپنی ملکیت کی لونڈی سے ہم بستری کرتا ہے تو اس کے بعد نہ وہ اسے بیچ سکتا ہے اور نہ ہی اسکی شادی ہو گی گویا اس کے بچوں کا پورا حق ہو گا کہ وہ آپ کہ بچے کہلائیں اس لئے تو کہا تھا کہ اسلام ایک پریٹیکل مذہب ہے وہ جانتا ہے کہ جب فطری طور سے برائی آئے تو اسے فطری طور سے ہی نکالا جائے تو اس طرح اسلام نے غلامی ختم کی-
اب اللہ رب العزت پانچویں اور چھٹی صفت بیان کرتے ہیں
وَٱلَّذِينَ هُمۡ لِأَمَٰنَٰتِهِمۡ وَعَهۡدِهِمۡ رَٰعُونَ ٨
"اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی حفاظت کرتے ہیں" (حوالہ مومنون-8)
اور اس کے برعکس اگر ہم اسے الٹا کریں کہ امانت میں خیانت کرتا ہے اور وعدہ خلافی کرتا ہے تو یہ منافق کی صفت ہے
حدیث میں ارشاد ہے
" ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے یہ حدیث بیان کی ، ان سے سفیان نے ، وہ اعمش بن عبیداللہ بن مرہ سے  نقل کرتے ہیں ، وہ مسروق سے ، وہ عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق ہی ہے ، جب تک اسے نہ چھوڑ دے ۔ (وہ یہ ہیں) جب اسے امین بنایا جائے تو (امانت میں) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب (کسی سے) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب (کسی سے) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے ۔ اس حدیث کو شعبہ نے (بھی) سفیان کے ساتھ اعمش سے روایت کیا ہے ۔" (صحیح بخاری حدیث نمبر 34)
تو یہاں مومن کی صفت منافق کی صفت کے الٹ ہے امانت اور خیانت کیا ہے
1۔پیسہ،مال و دولت اور زمین جائیداد آپ کے پاس رکھے جایئں (امانت) نہ دیں (خیانت)
2۔آپ جہاں جاب کرتے ہیں جس کام کے لئے بیٹھے ہیں وہ کام (امانت) نہ کریں(خیانت)
3۔ اگر کوئی راز کی بات کہے اور کسی کو نہ کہنا (امانت) کہہ دیا (خیانت)
اسی طرح قرآن بھی ایک امانت ہے
إِنَّا عَرَضۡنَا ٱلۡأَمَانَةَ عَلَى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱلۡجِبَالِ فَأَبَيۡنَ أَن يَحۡمِلۡنَهَا وَأَشۡفَقۡنَ مِنۡهَا وَحَمَلَهَا ٱلۡإِنسَٰنُۖ إِنَّهُۥ كَانَ ظَلُومٗا جَهُولٗا ٧٢
"بیشک ہم نے امانت پیش فرمائی آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے  اور آدمی نے اٹھالی، بیشک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے" (حوالہ احزاب -72)
اسی طرح دینِ اسلام کے سارے احکامات امانت ہیں جو ہمیں آگے پہنچانے ہیں اسی طرح امانت خود میں ایک وسیع معنیٰ رکھتی ہے اسی لئے مومن کی صفت ہے کہ وہ امانت میں خیانت نہ کرے-
اور وعدہ کے متعلق تو سب جانتے ہیں لیکن بڑی افسوس کی بات ہے کہ ہم امانت میں خیانت اور وعدہ خلافی کرنے میں دنیا میں مشہور ہو گئے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جن کی وجہ سے اسلام کا وقار باقی ہے لیکن ہم نے بھت رسوا کیا اسلام کو اپنے اعمال کی وجہ سے-
نبی کریم ﷺ  مکے میں ہیں اور آپ کی دعوت مشرکینِ مکہ کو پسند نہیں لیکن آپ ﷺ کے اخلاق سے بہت متاثر ہیں کہ یہ ایک صادق اور امین ہیں امانت دار اور سچے ہیں-
لیکن آج اسلام سے سب متاثر ہیں کہ کیا دیں ہے اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے کیسی قوم ہے یہ اس لئے ہمیں یہ صفتیں اپنے اندر پیدا کرنی ہیں تاکہ پھر سے ہم اپنا اعتماد دوسری قوموں پر قائم کر سکیں-
ایک روایت میں آتا ہے
"آپ ﷺ مکے سے جا رہے ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہیں کہ علی تم میرے پیچھے رہنا اور جو مشرکینِ مکہ کی امانتیں ہیں انہیں لٹا کر ہجرت کر کہ مدینہ آجانا" (حوالہ الرحیق المختوم)
اس لئے مشرکینِ مکہ نبی کریم ﷺ کو امانت دار کہتے تھے اور اب یہی صفت ہمیں خود میں لانی ہے تاکہ ہم لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کریں
اب اگلی آیت میں اللہ رب العزت پھر سے پہلی صفت دوہراتے ہیں
وَٱلَّذِينَ هُمۡ عَلَىٰ صَلَوَٰتِهِمۡ يُحَافِظُونَ ٩
"اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں" (حوالہ مومنون -9)
حفاظت سے مراد وقتوں پر پڑھنا بھولنا نہیں-
ایک حدیث میں آتا ہے
"روز قیامت وہ لوگ جن کا دل نماز میں اٹکا رہتا ہے اللہ کے (عرش کے) سائے میں ہوں کے" (جامع ترمذی حدیث نمبر 2391)
دل اٹکا ہونے سے مراد ایک نماز کے فارغ ہونے سے دوسری میں دھیان رہتا ہے کہ کہیں بھول نہ جائیں سو نہ جائیں یعنی فکر لگی رہتی ہے-
نماز کی حفاظت میں یہ بھی شامل ہے کہ وقت پر پڑھی جائے تاخیر نہ ہو مسجد نہ ہو تو بنائی جائے اس لئے مومن نماز کی حفاظت کرتا ہے
اور پھر جو ان سب صفتوں کے مالک ہیں اور اس کے علاوہ بہت سی اور صفتیں ہیں جو قرآن اور احادیث میں آئیں ہیں اور جو ان سب کے مالک ہیں  ان کے بارے اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں
أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡوَٰرِثُونَ ١٠
"یہی لوگ وارث ہیں" (حوالہ مومنون-10)
وارث یعنی وراثت اسے کہتے ہیں جو آباؤ اجداد سے چلی آ رہی ہو مثال کے طور پر میرے والد کے پاس جو کچھ ہے میرے لئے یا بھائی بہن یا بچوں کے لئے وراثت کا حصہ بن جاتا ہے اس لئے اللہ رب العزت نے فرمایا کے "یہی لوگ وارث ہیں" کس چیز کے وارث ہیں
اللہ رب العزت فرماتے ہیں
ٱلَّذِينَ يَرِثُونَ ٱلۡفِرۡدَوۡسَ هُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ ١١
"کہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے" (حوالہ مومنون-11)
ایک حدیث میں آیا ہے
"انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ ربیع بنت  نضر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں ، ان کے بیٹے حارث بن سراقہ جنگ بدر میں شہید ہو گئے تھے ، انہیں ایک انجانا تیر لگا تھا جس کے بارے میں پتا نہ لگ سکا تھا ، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : آپ مجھے (میرے بیٹے) حارثہ کے بارے میں بتائیے ، اگر وہ خیر پاس کا ہے تو میں ثواب کی امید رکھتی اور صبر کرتی ہوں ، اور اگر وہ خیر (بھلائی) کو نہیں پاس کا تو میں (اس کے لیے) اور زیادہ دعائیں کروں ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” حارثہ کی ماں ! جنت میں بہت ساری جنتیں ہیں ، تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں پہنچ چکا ہے اور فردوس جنت کا ایک ٹیلہ ہے ، جنت کے بیچ میں ہے اور جنت کی سب سے اچھی جگہ ہے"(حوالہ جامع ترمذی 3174)
اس لئے جب بھی دعا مانگو تو جنت الفردوس کی مانگو-
ایک روایت میں آتا ہے
" ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا مجھ سے محمد بن فلیح نے بیان کیا ، انہوں نے  کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا مجھ سے ہلال نے بیان کیا ، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا ، نماز قائم کی ، رمضان کے روزے رکھے تو اللہ پر حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے ۔ خواہ اس نے ہجرت کی ہو یا وہیں مقیم رہا ہو جہاں اس کی پیدائش ہوئی تھی ۔ “ صحابہ نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا ہم اس کی اطلاع لوگوں کو نہ دے دیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیا ہے ، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے ۔ پس جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو کیونکہ وہ درمیانہ درجے کی جنت ہے اور بلند ترین اور اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں ۔" (صحیح بخاری 7423)
اور اتنا آسان بھی نہیں جنت تو پانا
ایک روایت میں آتا ہے
"اللہ نے جبرائیل علیہ السلام کو کہا جاؤ میں نے جنت بنائی ہے دیکھ کہ آؤ کیسی ہے اور دیکھنے کے بعد انہوں نے اللہ سے کہا بیشک جنت ایسی جگہ ہے جس میں جائے بغیر کوئی رہ نہیں سکتا پھر دوبارہ کہا جاؤ اور دیکھو اس میں جانے کے راستے کیا ہیں تو دیکھنے کے بعد انہوں نے کہا کہ اے اللہ اب مجھے ڈر ہے کہ شاید بہت کم لوگ اس میں جائیں پھر کہا اب جہنم بھی دیکھ کے آؤ تو دیکھ کر آئے اور کہا بیشک جہنم ایسی جگہ ہے کہ کوئی بھی اس میں جانا پسند نہ کرے پھر کہا جاؤ اس میں جانے کے راستے دیکھ کے آؤ دیکھ کے آئے اور کہا کہ ایسے راستے ہیں کہ شاید بہت کم لوگ اس میں جانے سے بچ سکیں"-
ایک حدیث میں آتا ہے
"ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ابوالزناد  نے ، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” دوزخ خواہشات نفسانی سے ڈھک دی گئی ہے اور جنت مشکلات اور دشواریوں سے ڈھکی ہوئی ہے ۔"(صحیح بخاری 6487)
تو ہمیں ان صفتوں کا مالک بننا ہے تاکہ ہم جنت الفردوس کو پا سکیں-
اللہ ہم سب کو ان صفتوں کا مالک اور ان کو حاصل کرنے میں ہماری مدد فرمائے آمین یا رب العالمین

No comments:

Post a Comment

٢٣٥- کیا مرغ یا انڈے کی قربانی جائز ہے.؟

✍🏻مجاہدالاسلام عظیم آبادی سوال-مدعیان عمل بالحدیث کا ایک گروہ مرغ کی قربانی کو مشروع اورصحابہ کرام کا معمول بہ قرار دیتا ہے۔اور ان میں سے ...