Thursday, October 25, 2018

1024-درود شریف کے فضائل، مواقع اور احکامات

س- علماء کرام اپنی تقاریر میں یہ بیان فرماتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ کا نام لیا جائے تب ہمیں ﷺ کہنا چاہیے، اور کسی حدیث کا ذکر کرتے ہیں جس میں اللہ کے نبی نے فرمایا کے دنیا کا سب سے بخیل شخص وہ ہے جس نے میرا نام سنا اور مجھ پر درود نہیں بھیجا، کیا اس طرح کی کوئی حدیث وارد ہے.؟ اور یہ بھی بتائیں کہ اگر ایک تقریر میں دس مرتبہ ﷺ کہا جائے تو کیا دس مرتبہ درود بھیجنا لازم ہے یا ایک دو مرتبہ کافی ہے.؟

الحمدللہ

اول
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا ایک مقبول ترین عمل ہے۔ یہ سنت الٰہیہ ہے، اس نسبت سے یہ جہاں شان مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے مثل ہونے کی دلیل ہے، وہاں اس عمل خاص کی فضیلت بھی حسین پیرائے میں اجاگر ہوتی ہے کہ یہ وہ مقدس عمل ہے جو ہمیشہ کے لیے لازوال، لافانی اور تغیر کے اثرات سے محفوظ ہے کیونکہ نہ خدا کی ذات کے لیے فنا ہے نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کی انتہا۔ اللہ تعالٰیٰ نہ صرف خود اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہے بلکہ اس نے فرشتوں اور اہل ایمان کو بھی پابند فرما دیا ہے کہ سب میرے محبوب پر درود و سلام بھیجیں۔ اس لیے قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ،القرآن، الاحزاب، 33 : 56
ترجمہ: بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبی (مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں،
اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو.

اسی طرح درود و سلام کے فضائل اور دینی و دنیوی مقاصد کے حصول میں اس کی برکات مستند احادیث سے ثابت ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا آیا اور عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی مجھ پر ایک بار درود شریف پڑھے اللہ تعالٰیٰ اس کے بدلے اس امتی پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے دس درجے بلند کرتا ہے اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دیتا ہے اور اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے۔[ (نسائی، السنن الکبریٰ، 6 : 21، رقم : 9892)]“
ایک اور مقام پر ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں:

”میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم میں آپ پر کثرت سے درود شریف پڑھتا ہوں۔ میں کس قدر درود شریف پڑھا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا چاہو اگر زیادہ کرو تو بہتر ہے میں نے عرض کیا ’’نصف‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا چاہو البتہ زیادہ کرو تو بہتر ہے میں نے عرض کیا دو تہائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا زیادہ کرو تو بہتر ہے میں نے عرض کیا۔ میں سارے کا سارا وظیفہ آپ کے لیے کیوں نہ کرو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب تیرے غموں کی کفایت ہوگی اور گناہ بخش دیئے جائیں گے۔[ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الزهد، باب ماجاء فی صفة أوانی الحوض، 4 : 245، رقم : 2457]“

1- ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا)
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘ [ مسلم : ۴۰۸]
2- ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ ، وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ ، وَرَفَعَ عَشْرَ دَرَجَاتٍ) [ صحیح الجامع : ۶۳۵۹ ]
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔‘‘
3- درود شریف کثرت سے پڑھا جائے تو پریشانیوں سے نجات ملتی ہے ۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :
’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ پر زیادہ درود پڑھتا ہوں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے کہ میں آپ پر کتنا درود پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ جتنا چاہو۔ میں نے کہا : چوتھا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چاہواور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : آدھا حصہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : دو تہائی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَجتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔میں نے کہا : میں آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :إِذًا تُکْفٰی ہَمَّکَ ، وَیُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُکَ تب تمھیں تمھاری پریشانی سے بچا لیا جائے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ایک روایت ہے میں ہے :إِذَنْ یَکْفِیْکَ اﷲُ ہَمَّ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِتب تمھیں اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت کی پریشانیوں سے بچا لے گا۔‘‘ [ ترمذی : ۲۴۵۷ ، وصححہ الالبانی ]
روزِ قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب وہی ہو گا جو سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا تھا ۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أَوْلَی النَّاسِ بِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَکْثَرُہُمْ عَلَیَّ صَلاَۃً)
’’ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجے گا۔‘‘
[رواہ الترمذی وابن حبان وابو یعلی وغیرہم]

وہ مواقع جہاں درود شریف ضرور پڑھنا چاہیے​

ویسے تو درود شریف کسی وقت یا موقع کی قید کے بغیر کثرت کے ساتھ پڑھنا چاہیے، تاہم بعض مواقع ایسے ہیں جہاں اس کے پڑھنے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ ان میں سے کچھ تو مشہور ہیں ۔ مثلاً ہر نماز کے آخری تشہد میں، قنوتِ وتر کے آخر میں، نماز جنازہ کی دوسری تکبیر کے بعد اور خطبہ جمعہ وغیرہ میں۔ ان کے علاوہ مزید کچھ مواقع یہ ہیں :

1 دعا سے پہلے
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا ، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اس نے جلد بازی کی ہے ۔ پھر آپ نے اسے بلایا اور فرمایا : إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ فَلْیَبْدَأْ بِتَحْمِیْدِ اﷲِ وَالثَّنَائِ عَلَیْہِ ، ثُمَّ یُصَلِّیْ عَلَی النَّبِیِّ ، ثُمَّ لْیَدْعُ بِمَا شَائَ تم میں سے کوئی شخص جب نماز پڑھ لے تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف وثنا بیان کرے ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے ، اس کے بعد جو چاہے اللہ سے مانگے۔‘‘
[ ابو داؤد : ۱۴۸۱ ، ترمذی : ۳۴۷۷ ۔ وصححہ الالبانی ]
اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :
إِنَّ الدُّعَائَ مَوْقُوْفٌ بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأرْضِ لَا یَصْعَدُ مِنْہُ شَیْئٌ حَتّٰی تُصَلِّیَ عَلٰی نَبِیِّکَ ﷺ [ ترمذی : ۴۸۶۔ وحسنہ الالبانی ]
’’بے شک دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی رہتی ہے اور کوئی دعا اوپر نہیں جاتی یہاں تک کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں۔‘‘

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جائے تو ذکرکرنے اور سننے والے دونوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا چاہیے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ)
’’اس آدمی کی ناک خاک میں ملے جس کے پاس میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا۔‘ [ترمذی : ۳۵۴۵۔ وصححہ الالبانی ]
نیز ارشاد فرمایا :
(اَلْبَخِیْلُ الَّذِیْ مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ)
’’ بخیل وہ ہے جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘
[ ترمذی : ۳۵۴۶۔ وصححہ الابانی ]

2-اذان کے بعد
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
(إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا یَقُوْلُ ، ثُمَّ صَلُّوْا عَلَیَّ فَإِنَّہُ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ صَلاَۃً صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہٖ عَشْرًا)
’’جب تم مؤذن کو سنو تو تم بھی اسی طرح کہو جیسے وہ کہے ، پھر مجھ پر درود بھیجو ، کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں بھیجتا ہے ( یا دس مرتبہ اس کی تعریف کرتا ہے)۔‘‘ [مسلم: ۳۸۴]

3- مسجد میں داخل ہوتے اور اس سے نکلتے ہوئے
مسجد میں داخل ہوتے اور اس سے نکلتے ہوئے پہلے درود شریف اور پھر مسنون دعا پڑھنی چاہیے۔‘[ السنن الکبری للنسائی وابن حبان ]

4-جمعہ کے روز
حضرت اوس بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی بعض خصوصیات ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا :
(۔۔۔فَأَکْثِرُوْا عَلَیَّ مِنَ الصَّلاَۃِ فِیْہِ ، فَإِنَّ صَلاَتَکُمْ مَعْرُوْضَۃٌ عَلَیَّ قَالَ : قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اﷲﷺِ ! وَکَیْفَ تُعْرَضُ صَلاَتُنَا عَلَیْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ ؟ قَالَ : یَقُوْلُوْنَ : بَلَیْتَ ، فَقَالَ : إِنَّ اﷲَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَی الْأرْضِ أَجْسَادَ الْأنْبِیَائِ)
’’ لہذا تم اس دن مجھ پر زیادہ درود بھیجا کرو ، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ ( قبر میںآپ کا جسدِ اطہر ) تو بوسیدہ ہو جائے گا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر یہ بات حرام کردی ہے کہ وہ انبیا کے جسموں کو کھائے۔‘‘ [ ابو داؤد :۱۰۴۷ ۔ وصححہ الالبانی ]

5- صبح وشام
حضرت ابودردائ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(مََنْ صَلّٰی عَلَیَّ حِیْنَ یُصْبِحُ عَشْرًا ، وَحِیْنَ یُمْسِیْ عَشْرًا ، أَدْرَکَتْہُ شَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) [ صحیح الجامع : ۶۳۵۷ ]
’’جو آدمی صبح کے وقت دس مرتبہ اور شام کے وقت دس مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے ، اسے قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہو گی۔‘‘

دوم
احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجنا چاہیے، جہاں تک یہ سوال رہا کہ اگر ایک تقریر میں دس مرتبہ درود بھیجا جائے تو کیا دس مرتبہ جواب دینا ضروری ہے، جی ہاں بالکل، اگر سو مرتبہ بھی درود بھیجا جائے تو سو مرتبہ ہی جواب دیا جائیگا-

سوم
درود و سلام ایک ایسا محبوب و مقبول عمل ہے جس سے گناہ معاف ہوتے ہیں، شفا حاصل ہوتی ہے اور دل و جان کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے، اس سے بڑھ کر یہ کہ صلوٰۃ و سلام کسی صورت میں اور کسی مرحلہ پر بھی قابلِ رد نہیں بلکہ یہ ایسا عمل ہے جو اللہ تعالٰیٰ کی بارگاہ میں ضرور مقبول ہوتا ہے اگر نیک پڑھیں تو درجے بلند ہوتے ہیں اور اگر فاسق و فاجر پڑھے تو نہ صرف یہ کہ اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں بلکہ اس کا پڑھا ہوا درود و سلام بھی قبول ہوتا ہے۔

واللہ اعلم

No comments:

Post a Comment

٢٣٥- کیا مرغ یا انڈے کی قربانی جائز ہے.؟

✍🏻مجاہدالاسلام عظیم آبادی سوال-مدعیان عمل بالحدیث کا ایک گروہ مرغ کی قربانی کو مشروع اورصحابہ کرام کا معمول بہ قرار دیتا ہے۔اور ان میں سے ...